کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 198
نظروں میں اپنی جگہ بنائی تھی۔ اور وہ (فریضہ) ہے: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ ت: (سمندر کا ) جھاگ بالآخر ناکارہ ہوجا تا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ دین سے اعراض کرنے والوں کی جگہ اس جماعت کو لے آتا ہے جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہے۔ ث: جیسے سیلاب کے اوپر بہنے والا جھاگ زمین کی گندگیوں اور مختلف چیزوں کے بھوسے کا مجموعہ ہوتا ہے اسی طرح بہت سے مسلمانوں کے افکار بھی فلسفے کی گندگیوں ، گھٹیا تہذیبوں اور حقیر تمدن سے لتھڑے ہوئے ہیں ۔ ج: سیلاب کے اوپر جو جھاگ ہوتا ہے اس کے سامنے کوئی منزل نہیں ہوتی جس کی طرف وہ اپنے اختیار سے چل سکے۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو اپنی قبر اپنے ناخنوں کے ساتھ کھودتا ہے۔ اسی طرح امت مسلمہ نہیں جانتی کہ اس کے دشمن اسے کون سے راستوں پر ڈال رہے ہیں ؟ اس کے باوجود وہ ہر کائیں کائیں کرنے والے کے پیچھے چل پڑتی ہے اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتی ہے۔ ٭…اس حدیث سے نواں اشارہ یہ ملتا ہے کہ امت مسلمہ نے دنیا کو ہی اپنا سب سے بڑا مقصد اور اپنے علم کی منزل بنا لیا ہے۔ اسی لیے وہ موت کو نا پسند کرتے ہیں اور زندگی سے محبت کرتے ہیں ۔انہوں نے دنیا میں زندگی تو گزاری لیکن آخرت کے لیے زاد ِ راہ جمع نہیں کیا۔ اپنی امت کے اسی حالت میں مبتلا ہونے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ڈرتے تھے۔ جناب عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: (( اِذَا فُتِحَتْ عَلَیْکُمْ فَارِسُ وَالرُّومُ، أَیُّ قَوْمٍ أَنْتُمْ؟ قَاَل عَبْدُالرَحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ: نَقُوْلُ کَمَا أَمَرَنَا اللّٰہُ ، قَالَ: أَوْ غَیْرَ ذٰلِکَ؛ تَتَنَافَسُوْنَ، ثُمَّ تَتَحَاسَدُوْنَ، ثُمَّ تَتَدَابَرُوْنَ ثُمَّ تَتَبَاغَضُوْنَ- أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ- ثُمَّ تَنْطَلِقُوْنَ فِي مَسَاکِیْنِ الْمُہَاجِرِیْنَ؛ فَتَجْعَلُوْنَ بَعْضَہُمْ عَلٰی رِقَابِ بَعْضٍ۔))