کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 196
٭… اب کفار پر مسلمانوں کا رعب باقی نہیں رہا کیوں کہ انہوں نے اقوام عالم میں اپنی ہیبت اور وہ حیثیت کھو دی ہے جس سے کفار کے اجسام کا نپ اٹھتے تھے اور حزب الشیطان کے شانوں پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سب کچھ کر گزرنے والے رعب کا ہتھیار اب کفار کے دلوں کو نہ (رعب سے) بھرتا ہے اور نہ ہی ان کے قلعوں میں لرزہ طاری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا﴾ (آل عمران:۱۵۱) ’’اب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔ کیوں کہ انہوں نے اس کو اللہ کا شریک بنایا جس کے (شریک ہونے کی )اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ ‘‘ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((نُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھرٍ۔)) [1] ’’ ایک مہینے کی مسافت سے دشمن پر رُعب سے میری مدد کی گئی ہے۔ ‘‘ اور یہ خصوصیت (رعب): حدیث ثوبان میں مذکور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی بنیاد پر تمام امت مسلمہ میں شمار ہوتی ہے۔ [2] فرمایا: ((وَلْیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِکُمُ الْمَھَابۃَ مِنْکُمْ۔)) ’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا۔ ‘‘ ٭… امت مسلمہ کی قوت کے سر چشمے اس کی تعداد ،تیاریٔ اسلحہ اور افراد کار نہیں بلکہ (اس کی قوت کا راز )اس کے عقیدہ اور منہج (میں مضمر)ہے۔ کیوں کہ یہ ایمان اور توحید کی
[1] اخرجہ البخا ری (۱/۴۳۶۔فتح)، ومسلم (۵۲۱) من حدیث جابر بن عبد اللہ رضی اللہ۔ [2] یعنی یہ رعب (کفارپر ) صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ہیبت کا یہی عالم ہے اور اس کی دلیل اوپر مذکورہ حدیث ثوبان ہے۔ جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب کھینچ لے گا۔ تو پتہ چلا کہ پہلے مسلمانوں کا رعب ہو گا تبھی تو اسے نکالنے کی بات ہو رہی ہے۔ (مترجم)۔