کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 195
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ’’سَتُجَنّدُونَ أجْنَا داً ؛ جُنْداًً بِالشَّامِ، وَجُنْداً بِالعِرَاقِ، وَجُنْداً بِالیَمَنِ۔‘‘ فَقُلْتُ : خِرْلِی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !قَالَ: ’’عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ ، فَمَنْ أبیٰ فَلْیُلْحِقْ بِیَمِنِہِ ، وَلْیَسْتَقِ مِنْ غُدْرِہِ، فَاِنَّ اللّٰہَ عزَّ و جلَّ تَکَفَّلَ لِی بِالشَّامِ وَ أھلِھَا۔‘‘قَالَ رَبِیْعَۃُ : فَسَمِعْتُ أباَ اِدْرِیسَ الخَوْلَا نیَّ، یُحَدِّثُ بِہٰذا الْحَدِیْثِ وَیَقُوْلُ: وَمَنْ تَکَفَّلَ اللّٰہُ بِہِ فَلاَ ضَیْعَۃَ عَلَیْہِ۔ )) [1] ’’عنقریب تم مختلف لشکروں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں ، ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہو گا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ میرے لیے (ان میں سے) کوئی لشکر اختیار فرمائیے۔ (کہ جس کے ہمراہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلوں ) تو سرور گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم شام چلے جانا ، اگر کوئی شام میں نہ جانا چاہتا ہو تو وہ اس کے دائیں جانب (والے ممالک ) میں چلا جائے اور اس کا پانی پئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور اہل شام کی ضما نت دی ہے۔ ‘‘ ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے ابو ادریس خولانی کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔ وہ فرما رہے تھے : جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے لی وہ کبھی ضائع نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ کیا امت مسلمہ کی صورت حال ایسی نہیں ہیکہ وہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں یوں تقسیم ہو چکی ہے جن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ ان ریاستوں کا ا ن کے داخلی اور خارجی معاملات میں کوئی حصہ نہیں اور یہ اپنی قوت ، حمایت اور سیاست میں کفار سے مدد طلب کرتی ہیں ۔ سو اللہ تعالیٰ ہی ہمارا مدد گار اور اسی پر بھروسہ ہے۔
[1] صحیح : اس کے بہت سے طرق ہیں جن کو شیخ البانی نے احادیث دمشق و شام کی تشریح میں ذکر کیا ہے۔