کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 191
امت مسلمہ کی صورت حال اور رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں امت مسلمہ میں دو ایسی بیماریاں ظاہر ہو گئی ہیں جنہوں نے اس کا توازن بگاڑ دیا ہے اور یہ دائیں بائیں ڈگمگانے لگی ہے حتی کہ اس کے بہت سے گروہ اصل راستے سے ہٹ کر چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر چل نکلے ہیں ۔ اس بے چینی و گمراہی کے کچھ اسباب ہیں ۔ ۱۔ وھن کی حالت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس حالت کی طرف بغیر کسی پیچیدگی ، باریکی اور اشکال و انتشار کے بڑا واضح اشارہ موجود ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یُوْشِکُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمُ الأُمَمُ؛ کَمَا تَدَاعَی الْأَکْلَۃُ إِلیٰ قَصْعَتِہَا۔ فَقَالَ قَائِلٌ: أَوَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: ’’بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ ، وَلٰکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ، وَلَیَنْزِعنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَہْنَ۔‘‘ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا الْوَہْنُ؟ قَالَ: ’’ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ۔‘‘ )) [1] ’’قریب ہے کہ دنیا کی تمام قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو ایسے دعوت
[1] صحیح بطرقہ أخرجہ ابو داود (۴۲۹۷) من طریق ابن جابر حدثني أبو عبدالسلام عنہ بہ مرفوعاً۔ باب: فی تداعی الامم علی الاسلام۔ یہ حدیث ایسے طرق کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ابوداؤد نے (۴۲۹۷)اسے جابر کے طریق سے نقل کیا ہے: حدثنی ابو عبد السلام عنہ بہ مرفوعاً۔ میں کہتا ہوں : اس سند کو متابعات میں ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن جابر کا نام عبد الرحمن بن یزید بن جابر ہے جو کہ ثقہ راوی ہیں اور ان کے شیخ کا نام صالح بن رستم الدمشقی ہے۔ (الکاشف ۱۱ للحافظ الذہبی ۲/۱۹) لیکن حافظ ابن حجر نے (تقریب) میں ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ فی الجملہ وہ معتبر ہے۔ ابن جابر کی متابعت ابو اسماء الرحبی نے ثوبان سے کی ہے اور اس حدیث کو امام احمد نے اپنی کتاب مسند احمد (۵/۲۷۸) میں ۔ ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء (۱/۱۸۲) میں ۔ مبارک بن فضالہ حدثنا مرزوق ابوعبد اللہ الحمصی: حدثنا ابو اسماء الرحبی عنہ بہ نقل کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث حسن سند والی ہے اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں سوائے مبارک بن فضالہ کے۔ وہ ہے تو صدوق لیکن ان کی تدلیس کا خطرہ رہتا ہے۔ البتہ یہاں اس نے تحدیث کی صراحت کردی ہے۔ اس لیے یہ متابعت ثابت ہوگئی اور اس طرح یہ حدیث بھی صحیح ہوگئی۔ (وللّٰہ الحمد والمنۃ علی الاسلام والسنۃ)