کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 172
تو یہ قیام جائز بھی ہے اور مطلوب بھی۔ کیوں کہ یہ مہمان کی عزت کا حصہ ہے۔ اس کی ملاقات اور عزت کے لیے کھڑا ہونا۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ۔)) [1] ’’ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کو چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اور یہ قیام صرف میزبان کی طرف سے ہوگا۔ ‘‘ (۲) … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ۔ )) [2] ’’ اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ ‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ (( فَأَنْزِلُوْہُ )) ان کو سواری سے اُتارو۔ اس حدیث کے ذکر کا سبب یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہودیوں کے فیصلے کے لیے بلایا اور وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جب وہاں پہنچے تو آپ نے انصار سے کہا: ’’ اپنے سردار کی طرف اُٹھو اور ان کو سواری سے اُتارو۔ ‘‘ تو اس قیام کا مقصد انصار کے سردار سعد کو سہارا دینا تھا اور وہ گدھے پر سوار تھے۔ زخمی تھے کہ کہیں گر نہ جائیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی لوگ آپ کے ساتھ نہیں اُٹھے تھے۔ (۳) … یہ بھی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوئے تھے، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھاگتے ہوئے آگے بڑھے تاکہ ان کو ان کی توبہ کی قبولیت پر مبارک باد کہہ سکیں ۔ کیوں کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے۔ تو یہ مقام جائز ہے تاکہ غمگین آدمی کو خوشخبری دی جائے اور اللہ کی طرف سے توبہ کی بشارت سنائی جائے۔ (۴) … سفر سے آنے والے کے ساتھ معانقہ کرنے کے لیے اُٹھنا۔ نوٹ: … جواز والی احادیث میں قیام کے ساتھ إلی کا لفظ ہے جیسے کہ: (( إِلیٰ
[1] صحیح البخاري: ۲۰/ ۱۳۳، کتاب الادب، باب مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یُؤْذِ جَارَہُ۔ [2] صحیح البخاري: ۲۱/ ۷، کتاب الاستیذان، باب قَوْلِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم : قُومُوا إِلی سَیِّدِکُمْ۔