کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 170
’’ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مدد گار نہ بنو۔ ‘‘ (۳) … کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو اس کے علم کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہیں ۔ ہم ان سے کہتے ہیں : کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور صحابہ کے ادب میں شک کرتے ہو؟ پھر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اسلام میں کھڑا ہونا احترام نہیں ، بلکہ بات ماننا اور فرمانبرداری کرنا احترام سمجھا گیا ہے۔ سلام کہنا مصافحہ کرنا، احترام ہے۔ شوقی شاعر کا کلام بالکل فضول ہے۔ وہ کہتا ہے: قُمْ لِلْمُعَلِّمِ وَفِّہُ التَّبْجِیْلَا کَادَ الْمُعَلِّمُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلًا ’’ معلم کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور اس کا پورا احترام کرو۔ قریب ہے کہ معلم، رسول ہوجائے۔ ‘‘ یہ شعر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہے، جنھوں نے قیام کو ناپسند فرمایا اور جو اس کو پسند کرے وہ جہنم کو اپنے لیے واجب کرتا ہے۔ (اس لیے کہ اس میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بالصراحت گستاخی ہے۔ ) (۴) … کتنی بار دیکھا گیا ہے کہ ہم مجلس میں ہوتے ہیں اور کوئی سیٹھ آجاتا ہے تو سب اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کوئی فقیر آجائے تو کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ اس کے دل میں اس غنی اور حاضرین کے بارے میں کینہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یوں مسلمانوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے، جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ کھڑا ہونا بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ غریب اس مالدار سے اللہ کے نزدیک زیادہ افضل ہو۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ اَتْقَاکُمْط ﴾ [الحجرات:۱۳] ’’ بے شک تم میں سے اللہ کے یہاں زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ ‘‘ (۵) … کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر ہم نہ کھڑے ہوں تو آنے والا ناراض ہوگا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم اس کو باور کروائیں : اس کی محبت ہمارے دلوں میں ہے۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم