کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 166
’’ جیسے انسان پر کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا، اسی طرح یہ بھی دوسروں کا اجر حاصل نہیں کرسکتا۔ ‘‘ اسی آیت سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے کہ قرآن کریم کی قراء ت کا ثواب مردوں کو بخشا جائے تو ان کو نہیں ملتا۔ کیوں کہ یہ نہ تو اس میت کا عمل ہے اور نہ اس کی محنت کا اس میں داخل ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس کی طرف نہیں بلایا اور نہ اس کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور نہ کسی واضح دلیل یا اشارے میں بھی اس کی ہدایت فرمائی اور نہ ہی یہ کسی صحابی سے ثابت ہے۔ اگر یہ کارِ خیر ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم پر سبقت لے جاچکے ہوتے۔ عبادات تو صرف دلائل سے ثابت ہوتی ہیں ۔ قیاس آرائیوں سے عبادات میں تصرفات نہیں کیے جاتے۔ دعا اور صدقہ کے میت کو پہنچنے کی دلیل بھی موجود ہے اور اس پر اجماع بھی ہے۔ (۱) … مردوں پر قرآن پڑھنے کا اتنا رواج ہوگیا ہے کہ اب تو قرآن میت کی علامت بن گیا ہے۔ (ہمارے علاقے ملک شام میں ) مسلسل قرآن کو جب ریڈیو پر نشر کیا جائے تو سمجھو کہ کوئی حکمران مرگیا ہے۔ اور اگر قرآن کی آوازیں کسی گھر سے نکلیں تو سمجھو کہ ان کے یہاں صف ماتم بچھی ہوگی۔ ایک مریض پر کسی نے قرآن پڑھ دیا تو اس کی ماں چلانے لگی : بھائی میرا بیٹا ابھی مرا نہیں ہے کہ اس پر ابھی سے قرآن پڑھا جائے۔ ایک عورت نے ریڈیو پر سورۂ فاتحہ سنی تو کہتی ہے: میں اس سورت کو ناپسند کرتی ہوں کیونکہ یہ میرے بھائی کی وفات پر پڑھی گئی تھی۔ اب یہ میرا زخم تازہ کردیتی ہے۔ (کیوں کہ انسان موت اور اس کے متعلقات کو ناپسند کرتا ہے۔ ) (۲) … وہ میت جس نے زندگی میں نماز نہیں پڑھی اب اس کو بعد میں پڑھا جانے والا قرآن کیا فائدہ دے گا؟ جو کہ اس میت کو ہلاکت کی بشارت دے رہا ہے: ﴿ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَ o الَّذِینَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ o﴾ [الماعون:۴۔۵]