کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 165
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآنِ حکیم کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کی اور وہ دنیا و آخرت میں خوش بخت بن گئے۔ جب مسلمانوں نے قرآن کی تعلیمات کو چھوڑا اور اس کو قبروں پر پڑھنا شروع کردیا اور سوگ کے دنوں کے لیے رکھ لیا، تو ان کو ذلت نے آلیا۔ وہ تار تار ہوگئے اور ان پر اللہ کا یہ فرمان صادق آنے لگا: ﴿ وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا o﴾[الفرقان:۳۰] ’’ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے کہ اے میرے رب! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن زندوں کے لیے نازل کیا ہے کہ وہ زندگی بھر اس پر عمل کریں ۔ قرآن مردوں کے لیے نہیں ہے۔ ان کے اعمال تو منقطع ہوگئے۔ وہ تو اس کو پڑھ کر عمل نہیں کرسکتے۔ اس کی قرأت کا ثواب ان کو نہیں جاتا، البتہ بیٹے پڑھیں تو جاتا ہے ، کیوں کہ وہ والد کی محنت ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَـلَاثَۃٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ۔ )) [1] ’’ جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں ، سوائے تین کے۔ صدقہ جاریہ، یا ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جاتا رہے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دُعا کرے۔ ‘‘ اور اللہ کا فرمان ہے: ﴿ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی o﴾ [النجم:۳۹] ’’ اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے خود محنت کی۔ ‘‘ یہاں حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
[1] صحیح مسلم: ۱۱/ ۶۷، کتاب الوصیۃ، باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ۔