کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 163
اللہ کا فرمان ہے: ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَـلَا یَمْلِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیلًا o اُولَئِکَ الَّذِینَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلَی رَبِّہِمُ الْوَسِیلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُونَ رَحْمَتَہُ وَیَخَافُونَ عَذَابَہُط إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُورًا o﴾ [الإسراء:۵۶۔۵۷] ’’ ان سے کہہ دیں کہ جن کو تم اللہ کے مقابلے میں بڑا کچھ سمجھتے ہو ان کو پکارو تو وہ تمہاری تکلیف رفع کرنے کے مالک نہیں اور نہ تبدیل کرنے پر قادر ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جو اللہ کو پکارتے اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں زیادہ قریب کون ہے۔ اور وہ اللہ کی رحمت کے اُمید وار اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ اور تیرے رب کا عذاب بڑی ہی ڈرائی گئی چیز ہے۔ ‘‘ مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے نازل ہوئی جو عیسیٰ علیہ السلام یا فرشتوں کو پکارتے تھے یا نیک جنوں کو پکارتے تھے۔ (ابن کثیر) (۲) … خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے خوش ہوں گے، اگر ان کے بارے یہ کہا جائے کہ آپ عقدے کھولتے اور مصیبتیں رفع کرتے ہیں ؟ جبکہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہتا ہے: ﴿ قُلْ لَّا اَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَائَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوئُ ط إِنْ اَنَا إِلَّا نَذِیرٌ وَّبَشِیرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ o﴾ [الاعراف:۱۸۸] ’’ ان سے کہو کہ میں اللہ کی مشیت کے علاوہ اپنے نفس کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں ۔ اور اگر میں علم غیب جانتا ہوتا تو ساری خیر اکٹھی کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ آتی۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ، مومنوں کی قوم کو۔ ‘‘