کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 158
’’ اگر اللہ کی طرف سے کوئی آپ کو تکلیف پہنچے تو اس کو اللہ کے سوا اور کوئی بھی رفع نہیں کرسکتا۔ اور اگر آپ کو بھلائی پہنچے تو وہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی غم پریشانی لاحق ہوجاتی تو فرماتے: (( یَا حَيُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیثُ۔ )) [1] ’’ اے زندہ اور قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے مدد کا طلب گار ہوں ۔ ‘‘ تو پھر ہمارے لیے کیسے جائز ہوگیا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ: آپ ہماری مدد کریں ، ہمیں نجات دلائیں ؟ اور یہ صیغہ کلام اس حدیث کے بھی خلاف ہے: (( إِذَا سَاَلْتَ فَاسْاَلِ اللَّہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّہِ۔)) [2] ’’ جب بھی سوال کرو اللہ سے اور جب بھی مدد مانگو تو صرف ایک اللہ سے مانگو۔ ‘‘ (۵) …فاتح کا دُرود اور اس کا صیغہ یوں لکھتے، پڑھتے ہیں : (( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ الْفَاتِحِ لِمَا أَغْلَقَ۔)) ’’ اے اللہ! اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود ہو جو ہر بند کو کھولنے والے ہیں ۔ ‘‘ اس درود کا کہنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ جو یہ کلمات کہے گا اس کو چھ ہزار سے زیادہ دفعہ قرآن پڑھنے سے افضل اجر ہوگا۔ یہ شیخ احمد تیجانی، سربراہِ طریقت تیجانی سے منقول ہے۔ یہ عقیدہ رکھنا نری بیوقوفی ہے کہ کوئی عقل مند یہ کہے۔ چہ جائیکہ کوئی مسلمان کہے: یہ خود ساختہ صیغہ ایک دفعہ قرآن پڑھنے کے برابر ہے بلکہ چھ دفعہ قرآن پڑھنے سے افضل ہے۔ یہ بات کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ بند کھولنے والے ہیں اور وہ بھی مطلق انداز میں کہ اس کو اللہ کی مرضی سے مشروط بھی نہیں کیا گیا، تو یہ بھی غلط ہے۔ کیوں کہ آپ نے اللہ کی
[1] سنن الترمذي: ۱۳/ ۲۵، کتاب الدعوات، باب: یَا حَيُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیث۔ [2] سنن الترمذي: ۹/ ۴۳۰، کتاب صفۃ القیامۃ، باب قول النبی یا حنظلۃ عاعۃ وساعۃ۔