کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 144
’’ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کی مثال بیان کی ہے جو امن و اطمینان سے تھی، اس کا رزق بآسانی ہر طرف سے آتا تھا۔ اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو ان کے اعمال کی وجہ سے بھوک اور خوف کا لباس پہنادیا۔ ‘‘ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ عادل اور حکمت والا ہے اور اس نے کبھی بھی کسی قوم پر مصیبت نازل نہیں کی ، مگر اُن کی بد اعمالیوں کی وجہ سے۔ اللہ کی نافرمانی اور حکم عدولی کی وجہ سے۔ خصوصاً توحید سے دُور ہونا شرک کے مظاہر کا عام ہونا، ان اسلامی ممالک میں جو فتنوں اور مصیبتوں کی شکایت کرتے ہیں ۔ یہ مصائب تب ہی دُور ہوں گی جب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے گا اور فرد و معاشرے پر اللہ کی کتاب کی حکومت قائم کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا احوال بیان کیا ہے کہ وہ مشاکل و مصائب کے وقت خالص اللہ کو پکارتے تھے اور جب اللہ ان کو نجات دے دیتا تو شرک کی طرف لوٹ آتے اور آسانی کے وقت غیر کو پکارتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللَّہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ o﴾ [العنکبوت:۶۵] ’’ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے تو اللہ کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اسی کو پکارتے تھے۔ اور جب اللہ ان کو خشکی کی طرف نجات دے دیتا تو فوراً شرک کرنے لگ جاتے۔ ‘‘ اور آج کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ مصیبت کے وقت بھی غیراللہ ہی کو پکارتے اور یوں چیختے ہیں : یا رسول اللہ مدد! یاجیلانی مدد! یارفاعی یا مرغنی، یا بدوی، یا شیخ العرب، یا علی مدد! وغیرہ وغیرہ۔ وہ مشکل اور آسانی دونوں حالتوں میں شرک کرتے اور اپنے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مسلمان جب غزوۂ اُحد میں وقتی حزیمت کا شکار ہوئے بعض تیر اندازوں کے امیر کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے ان کو بہت تعجب ہوا۔ کہنے لگے: یہ کیسے ہوگیا؟ اللہ نے فرمایا: