کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 127
خلافی کر رہا ہے؟ ہرگز نہیں !! لیکن وہ مومن ہی کہاں ہیں جن کی بدر جیسی مدد ہو۔ ہم مجاہدوں سے سوال کرتے ہیں : (۱) … کیا انھوں نے ایمان اور توحید میں تیاری کرلی کہ جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں دعوت کا آغاز فرمایا تھا، قتال سے پہلے؟ (۲) … کیا انھوں نے وہ تیاری کرلی ہے، جس کا حکم اللہ نے یوں دیا ہے: ﴿ وَاَعِدُّوا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ ﴾ [الانفال:۶۰] ’’ اور ان دشمنوں کے لیے جتنی ہوسکے طاقت تیار کرو۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر نشانہ بازی کے ساتھ کی تھی۔ (۳) …کیا انھوں نے قتال میں خالص اللہ کو پکارا (یا پھر یا علی مدد کہتے رہے) یا اُنھوں نے اس کے ساتھ شرک کیا اور ایسے لوگوں سے مدد مانگنے لگے جن کو اپنے تئیں ولی کہتے ہیں ؟ حالانکہ وہ تو خود اللہ کے بندے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کے لیے نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں ۔ وہ ایک ہی رب کو پکارنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ ﴿ اَلَیْسَ اللَّہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ﴾ [الزمر:۳۶] ’’ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ ‘‘ (۴) … کیا وہ آپس میں ایک جان ہو کر باہم محبت کرنے والے ہیں کہ ان کا مطمع نظر اللہ کا یہ قول ہو: ﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیحُکُمْ ﴾ [الانفال:۴۶] ’’ اور نہ آپس میں جھگڑو، پھر تم ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ ‘‘ آخر میں کہتا ہوں کہ جب مسلمانوں نے اپنا عقیدہ اور دین کے اُمور کو چھوڑ دیا کہ جو علمی اور تہذیبی طور پر آگے بڑھنے کا حکم دیتے تھے تو وہ ساری اقوام سے پیچھے رہ گئے۔ اور جب بھی وہ اپنے دین کی طرف پلٹیں گے، ترقی اور عزت ان کے قدم چومے گی۔ ان شاء اللہ