کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 122
خطاب نے حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے جب وہ بقید حیات تھے، بارش طلب کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے نہیں ۔ (حوالہ اوپر گزر چکا ہے۔ ) رہی وہ حدیث (( تُوَسِّلُوْا بِجَا ہِیَ۔)) … ’’ کہ میری جاہ کے واسطہ سے دُعا کرو۔ ‘‘ تو یہ حدیث من گھڑت ہے۔ جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے: ’’ اور یہ بدعی وسیلہ کبھی شرک تک لے جاتا ہے۔ جب یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ واسطے کا محتاج ہے جیسے حکمران اور گورنر لوگ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ اس میں خالق کی مخلوق سے مشابہت بن جائے گی۔ ‘‘ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے غیر کے واسطہ سے اللہ سے دُعا کرنے کو ناپسند کرتا ہوں ۔ ‘‘ (ردّ المختار) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی وفات کے بعد دُعا کرنے کی اپیل کرنا درست نہیں ، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ کام نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَـلَاثَۃٍ، إِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ، اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ اَوْ،وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ۔ )) [1] ’’ جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں ، سوائے تین کے۔ صدقہ جاریہ، یا ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جاتا رہے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دُعا کرے۔ ‘‘ اللہ کی مدد آنے کی شرطیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور جہاد کا طالب علم خوب سمجھتا ہے کہ اللہ کی مدد آنے کے لیے درج ذیل مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔
[1] صحیح مسلم: ۱۱/ ۶۷، کتاب الوصیۃ، باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ، ح: ۴۲۲۳۔