کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 121
سے دُعا کروانا ممکن نہیں رہا، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ کام نہیں کیا اور نہ ہی نابینا حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے کبھی استفادہ کیا۔ [1] ممنوع وسیلہ اور اس کی اقسام ایسا وسیلہ کہ جس کا دین میں کوئی ثبوت نہ ہو شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے۔ اور اس کی بھی کئی قسمیں ہیں ! (۱) … فوت شدگان کا وسیلہ: یعنی ان سے حاجات طلب کرنا، ان سے مدد طلب کرنا، جیسے کہ آج کے مسلمان کرتے ہیں اور اس کا نام وسیلہ رکھ لیتے ہیں جب کہ یہ وسیلہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وسیلہ شرعیہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایمان ،عمل صالح، اللہ کے اچھے ناموں کے واسطہ سے مانگا جائے۔ جب کہ فوت شدگان سے مانگنا، اللہ سے منہ پھیرنا وہ شرکِ اکبر ہے۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِینَ o﴾ [یونس:۱۰۶] ’’ اللہ کے علاوہ ایسی ذات کو نہ پکارو جو تمھیں نفع و نقصان نہیں دے سکتا۔ اگر تو نے پھر بھی ایسا کیا تو تم ظالموں میں ہوجاؤگے۔ ‘‘ (۲) … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا واسطہ: مثلاً یوں کہنا کہ اے اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ و ھشمت کے واسطے مجھے شفا دے دے۔ یہ بدعت ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا نہیں کیا۔ اور اس لیے بھی کہ حضرت عمر بن
[1] بلکہ صحابہ کرام کو عہد عمر رضی اللہ عنہم اجمعین میں بارش کی ضرورت پڑی تو امیر المؤمنین سیّدنا عمر بن الخطاب جناب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کو لے کر باہر گئے اور اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہوئے کہنے لگے: اے اللہ! ہم تیرے نبی کے واسطہ سے بارش مانگا کرتے تھے اور آپ ہمیں عنایت فرماتے تھے، اب ہم ان کے چچا کے واسطے سے بارش مانگتے ہیں ، اب بھی ہمیں عنایت فرمادے۔ ‘‘ (بخاری شریف) یہ نہیں کہا کہ اب بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے بارش طلب کرتے ہیں ۔ اور نہ یہ کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا وسیلہ لیتے ہیں !!