کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 111
کرنے والے اور مجوسی مذہب کو ماننے والے ہیں ۔ ‘‘[1] ان کافروں نے جب دیکھا کہ مساجد تو نمازیوں سے بھری رہتی ہیں اور وہ خود نہ نماز پڑھتے ہیں نہ حج کرتے ہیں تو انھوں نے قبروں پر مزار بنادیے تاکہ مسجدوں کو برباد اور خانقاہوں کو آباد کیا جاسکے۔ جھوٹی قبریں بنا کر مشہور کردیا کہ ان میں حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور زینب بنت علی رضی اللہ عنہما مدفون ہیں ۔ ان پر میلے کروائے تاکہ لوگ ان قبروں پر جانور ذبح کریں ۔ پھر مسلمانوں نے ان سے یہ خرافات سیکھیں ، جن سے وہ شرک میں ملوث ہوگئے اور انھوں نے اس مقصد کے لیے بیش بہا اموال صرف کیے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اموال سے اسلحہ خرید کر مسلمانوں کے دین اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ یہ مال جو قبے، مزار، دیواروں اور زائرین پر خرچ کیے جاتے ہیں ان کا میت کو کچھ فائدہ نہیں ۔ اگر یہی اموال کسی حاجت مند کو دیے جاتے تو ان کے زندوں اور مردوں کو فائدہ ہوتا۔ اور یہ معروف ہے کہ اسلام قبروں پر عمارت سازی سے منع کرتا ہے۔ جیسے کہ اوپر گزرچکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لگائی اور فرمایا: (( اَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ۔)) [2] ’’ اے علی! ہر تصویر کو مسخ کردو اور ہر اونچی قبر کو برابر کردو۔ ‘‘ یعنی اونچی قبر کو عمومی قبروں کے برابر کردو۔ اسلام نے ایک بالشت تک قبر کو بلند رکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ قبر ہے۔ (۶) … یہ چڑھاوے جو قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں ، یہ شرکِ اکبر کے زمرے میں آتے ہیں ، جن کو مجاور لوگ حرام طریقے سے وصول کرتے ہیں ۔ پھر ان مالوں کو شہوات اور گناہ کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں ، جن کے گناہ میں نذر و نیاز دینے والے بھی برابر کے شریک ہیں ۔ اگر یہی مال غرباء میں تقسیم کردیے جاتے تو زندوں اور مردوں کو فائدہ
[1] دیکھئے: البدایہ والنہایہ، ج: ۱۱، ص: ۳۴۶۔ [2] صحیح مسلم: ۶/ ۲۰۱، کتاب الجنائز، باب الاَمْرِ بِتَسْوِیَۃِ الْقَبْرِ۔