کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 109
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ قبر کو پختہ کیا جائے، اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت کھڑی کی جائے۔ ‘‘ اور پختہ کرنے میں ہر قسم کے پینٹ بھی شامل ہیں ۔ ایک صحیح روایت میں ہے: (( وَأَنْ یَّکْتُبَ عَلَیْہِ۔ )) ’’ آپ نے قبر پر لکھائی کروانے سے بھی روکا۔ ‘‘ اس میں قرآنی آیات، شعر اور مرنے والے کے نام و فضائل وغیرہ لکھنا بھی شامل ہے۔ (۱) … ان مزاروں میں اکثر کے مقامات درست بھی نہیں ہیں ۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما عراق میں شہید ہوئے جب کہ ان کی قبر مصر میں بھی بنائی گئی ہے جو بالکل درست نہیں ۔ کیوں کہ وہ مصر گئے ہی نہیں ۔ ہماری بات کی بڑی دلیل ایک اور بھی ہے کہ ان کی قبر عراق، مصر کے علاوہ شام میں بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میت کو مساجد میں دفن نہیں کرتے تھے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔ )) [1] ’’ اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے، جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔‘‘ اس میں حکمت یہ ہے کہ مساجد شرک سے پاک رہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَـلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّہِ اَحَدًا o﴾ [الجن:۱۸] ’’ اور مساجد اللہ کے لیے ہیں ، پس اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں مدفون نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنے گھر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارک) میں دفن ہوئے تھے، پھر اموی حکمرانوں نے مسجد کی توسیع کی تو آپ کے گھر مسجد میں شامل ہوگئے۔ کاش وہ ایسا نہ کرتے۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی قبر اب مسجد میں ہے اور بعض لوگ اس کے گرد طواف کرتے ہیں ۔
[1] صحیح البخاري: ۲/ ۲۵۵، کتاب الصلاۃ، باب، رقم: ۵۵۔