کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 100
﴿ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوئُ﴾ [الاعراف:۱۸۸] ’’ (اے ہمارے حبیب و خلیل نبی! آپ لوگوں کو بتلادیجیے) اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ہر قسم کی خیر سمیٹ لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ آتی۔ ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اور سب سے اعلیٰ دوست اللہ عزوجل سے جاملنے کے بعد کیسے غیب جاننے والے ہوسکتے ہیں ؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچی کو کہتے ہوئے سنا : (( وَفِیْنَا نَبِيٍّ یَعْلَمُ مَا فِیْ غَدٍ۔ )) ’’ اور ہمارے درمیان ایسا نبی موجود ہے جو کل کی باتیں جانتا ہے۔ ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اُس کو روکا اور فرمایا: (( دَعِي ہَذِہِ، وَقُولِي بِالَّذِي کُنْتِ تَقُولِینَ۔ )) [1] ’’ یہ بات نہ کرو اور جو بات پہلے کر رہی تھی، وہی کرو۔ ‘‘ ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ انبیاء کرام کو بسااوقات اللہ تعالیٰ غیب کی بات بتادیتا ہے۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿ عَالِمُ الْغَیْبِ فَـلَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ اَحَدًا o إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ فَاِِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا o﴾ [الجن:۲۶۔۲۷] ’’ وہ اللہ عالم غیب ہے۔ چنانچہ وہ تو کسی پر غیب کا اظہار نہیں کرتا مگر رسولوں میں سے جس پر چاہے، جتنا چاہے (اور اُس کے بھی آگے اور پیچھے فرشتوں کا پہرا لگادیتا ہے۔) غیب کا اظہار کردیتا ہے۔‘‘ [2]
[1] صحیح البخاري: ۱۷/ ۲۱۷، کتاب النکاح، باب: ضَرْبِ الدُّفِّ فِي النِّکَاحِ وَالْوَلِیمَۃِ، ح: ۵۱۴۷۔ [2] ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ بہت پیچیدہ بنادیا گیا ہے، حالانکہ یہ بالکل آسان سا معاملہ ہے۔ جن دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا، جیسے بیعت رضوان کا قصہ ہے تو اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ غیب کا علم نہیں رکھتے تھے۔ اور جہاں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کوئی واقعہ رونما ہونے سے پہلے اس کے بارے میں ارشاد فرمادیا تو وہاں سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتہ کے ذریعے غیب کی بات بتلادی تھی، جیسے مذکورہ آیت سے واضح ہورہا ہے۔ تو ہمارے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غیب جانتے تھے، جب آپ کا رب اُن کو مطلع کردیتا تھا۔ اور اتنا معاملہ پھر غیب رہ ہی نہیں جاتا تھا۔