کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 90
اس نے عرض کی:’’عدی بن حاتم۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ گیا ہے۔‘‘ اس نے[دوبارہ]درخواست کی:’’مجھ پر احسان فرمائیے۔‘‘ اس نے بیان کیا:’’[اس کو چھوڑنے کا حکم دینے کے بعد]جب آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)واپس لوٹے،تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پہلو میں موجود شخص نے جو کہ ہمارے خیال میں علی رضی اللہ عنہ تھے کہا کہ:’’آپ سے[واپس جانے کے لیے]سواری اور زاد ِ راہ بھی طلب کرو۔‘‘ راوی[عدی]نے بیان کیا:’’اس[عورت]نے سواری اور زادِ راہ طلب کیا،تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے اس کی طلب کو پورا کرنے کا حکم دیا۔‘‘ راوی نے بیان کیا:’’وہ میرے پاس آئیں،اور کہنے لگیں:’’تو نے میرے ساتھ ایسا[برا]معاملہ کیا ہے کہ تمہارا باپ ایسا معاملہ نہ کیا کرتا تھا۔‘‘ پھر اس[عدی کی پھوپھی]نے کہا:’’ان کی خدمت میں کچھ لینے کی غرض سے،یا سزا سے بچنے کی خاطر حاضر ہو جاؤ[یعنی بہرصورت ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ]،فلاں فلاں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر[خیر کو]پایا ہے۔‘‘ انہوں نے بیان کیا:’’میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ہاں حاضر ہوا،تو[اس وقت]آپ کے پاس ایک عورت اور بچے یا ایک بچہ تھا۔ان[عورت اور بچوں]کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبی تعلق کا ذکر کیا گیا،تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کسریٰ وقیصر کے بادشاہوں کی طرح نہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عدی بن حاتم ! تجھے[لا إلہ إلا اللّٰه]کہنے سے کس چیز نے بھگایا ؟ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ تجھے