کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 77
((أَ نَّہَا آمَنَتْ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم،فَقَالَتْ:فَجَآئَ أَبُوْ أَنَسٍ وَکَانَ غَائِبًا،فَقَالَ:’’أَصَبَوْتِ؟۔‘‘ قَالَتْ:’’مَا صَبَوْتُ،وَلٰکِنِّي آمَنْتُ بِہٰذَا الرَّجُلِ۔‘‘ قَالَتْ:’’فَجَعَلَتْ تُلَقِّنُ أَنَسًا تُشِیْرُ إِلَیْہِ قُلْ:’’لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰه’‘ قُلْ:’’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ’‘(صلی اللّٰه علیہ وسلم)۔ قَالَ:’’فَفَعَلَ۔‘‘ قَالَ:فَیَقُوْلُ لَہَا أَبُوْہُ:’’لاَ تُفْسِدِيْ عَلِيَّ اِبْنِيْ۔‘‘ فَتَقُوْلُ:’’إِنِّيْ لاَ أُفْسِدُہُ۔‘‘))[1] ’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آئیں۔ابو انس[ان کا شوہر]جو کہ کہیں گیا ہوا تھا،واپس آیا،تو کہنے لگا:’’کیا تو بے دین ہو چکی ہے؟۔‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’میں لا دین نہیں ہوئی،بلکہ میں تو اس آدمی[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]کے ساتھ ایمان لا چکی ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے انس(رضی اللہ عنہ)کو تلقین کرنا شروع کی کہ وہ[لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اﷲ]اور[أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا(صلی اللہ علیہ وسلم)رَسُوْلُ اﷲ]کہے۔ انس(رضی اللہ عنہ)نے ایسے ہی کیا۔ ابوانس ان سے کہنے لگا:’’میرے بچے کو نہ بگاڑو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’یقینا میں اس کو بگاڑ نہیں رہی۔‘‘ واقعے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے چھوٹے بیٹے کو کلمہ ئِ شہادت پڑھنے کا حکم دیا۔بیٹے کی کم عمری اس حکم کے دینے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔
[1] الطبقات الکبری ۸/۴۲۵ ؛ نیز ملاحظہ ہو : سیر أعلام النبلاء ۲/۳۰۵