کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 63
فرمایا:’’اگر تم مناسب سمجھو تو اس[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی]کے قیدی کو چھوڑ دو،اور اس کا ہار اس کو واپس کر دو۔‘‘ انہوں[حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم]نے عرض کی:’’جی ہاں[ہم تیار ہیں]اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ انہوں نے اس[ابو العاص]کو چھوڑ دیا،اور انہیں[حضرت زینب رضی اللہ عنها کو]ان کا ہار واپس کر دیا۔‘‘ حضرت زینب رضی اللہ عنها کا ہار دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید رقت کا طاری ہونا،ان کے شوہر کو چھوڑنے اور بیٹی کا ہار واپس کرنے کا حضرات صحابہ کو مشورہ دینا،بلاشک وشبہ یہ سب باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید تعلق پر دلالت کناں ہیں۔ ب۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنهاکے ساتھ آپ کا تعلق: امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت مسور بن محرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((فَاطِمَۃُ رضی اللّٰه عنها بَضْعَۃٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَہَا فَقَدْ أَغْضَبَنِي۔))[1] ’’فاطمہ رضی اللہ عنها میرے[جسم]کا ایک ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ((یُؤْذِیْنِي مَا آذَاہَا۔))[2] ’’جو چیز اس کے لیے باعث اذیت ہے وہ میرے لیے بھی باعث اذیت ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاري ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب مناقب فاطمہ رضي اللّٰه عنها، رقم الحدیث ۲۷۶۷، ۶/۱۰۵ [2] صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فضائل فاطمۃ بنت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ، رضی اللّٰه عنہا، رقم الحدیث ۹۴ (۲۴۴۹) ، ۴/۱۹۰۳