کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 53
اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔آگاہ ہو جاؤ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پرسش ہو گی۔‘‘ امام خطابی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے: ((مَعْنَی الرَّاعِيْ ہٰہُنَا:اَلْحَافِظْ اَلْمُؤْتَمِنُ عَلَی مَا یَلِیْہِ،یَأْمُرُہُمْ بِالنَّصِیْحَۃِ فِیْمَا یَلُوْنَہُ،وَیُحَذِّرْہُمْ أَنْ یَخُوْنُوْا فِیْمَا وُکِلَ إِلَیْہِمْ مِنْہُ أَوْ یُضَیِّعُوْا۔))[1] ’’[الراعی]کا یہاں معنی یہ ہے کہ جن لوگوں کا وہ سرپرست بنا ہے ان کی حفاظت کرے،ان کے معاملے میں امانت دار ہو،انہیں اپنے سپرد عورت کے[راعیۃ][نگہبان]ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ جن کی نگہداشت کی ذمہ داری اس کو سونپی گئی ہے،وہ انہیں بھلائی کا کام چھوڑنے پر اس کے کرنے کا حکم دے،اور برائی کا ارتکاب کرنے پر اس سے منع کرے۔ شدہ کاموں کو خیر خواہی اور اخلاص سے سرانجام دینے کا حکم دے،ان میں خیانت کرنے اور انہیں ضائع کرنے سے ڈرائے۔‘‘ دیگر نگہبانوں کی طرح عورت سے بھی اس بارے میں روزِ قیامت باز پرس ہو گی،جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ((وَہِيَ مَسْؤُوْلَۃٌ عَنْہُمْ۔))
[1] معالم السنن ۳/۲ ؛ نیز ملاحظہ ہو : شرح النووي ۱۲/۲۱۳۔ اس میں ہے : ((قَالَ الْعُلَمَائُ : اَلرَّاعِيْ:ہُوَ الْحَافِظُ الْمُؤْتَمِنُ الْمُلْتَزِمُ صَلاَحَ مَا قَامَ عَلَیْہِ ، وَمَا ہُوَ تَحْتَ نَظْرِہِ۔ فَفِیْہِ أَنَّ کُلَّ مَنْ کَانَ تَحْتَ نَظَرِہِ شَيْئٌ فَہُوَ مُطَالَبٌ بِالْعَدْلِ فِیْہِ ، وَالْقِیَامِ بِمَصَالِحِہِ فِيْ دِیْنِہِ وَدُنْیَاہُ وَمُتَعَلِّقَاتِہِ ۔‘‘ ’’علماء نے بیان کیا ہے کہ [الراعي] اپنی سرپرستی میں شامل لوگوں کی حفاظت کرنے والا ، ان کے بارے میں امانت دار ، اور ان کی خیر خواہی کا پابند ہوتا ہے [لفظ الراعی] کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے زیر ِ سرپرستی لوگوں میں عدل کرے ، اور ان کے دینی اور دنیوی مصالح کی نگہداشت کرے۔‘‘