کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 34
کیا ہے،جن باتوں کے ساتھ امت کی دنیا وآخرت میں رفعت ومنزلت،شان وعظمت،سعادت اورخوش بختی کو وابستہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک اہم بات امت کے تمام افراد کا اس فریضے کو اپنی استطاعت کے بقدر ادا کرنا ہے۔[1]
لیکن یہ بات عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ دین سے تعلق والے بہت سے لوگ بھی جو کہ[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر]کے فریضہ کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے اور مانتے ہیں،اس کو فکری اور عملی طور پر،یا کم از کم عملی طور پر مردوں کے دائرے میں محدود کر دیتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مردوں کے کرنے کا کام ہے،خواتین کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں۔اس سوچ اور طرز عمل کے افسوس ناک اور بھیانک نتائج دینی فکر اور تڑپ رکھنے والے مسلمانوں کو بے قرار اور پریشان کر رہے ہیں۔کتنے گھرانوں کے مرد اللہ تعالیٰ سے سرگوشیوں اور مناجات کے لیے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں،اور انہی کے گھروں میں،ان کی بیگمات کے سامنے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے پروگرام دیکھے اور سنے جاتے ہیں،اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ گناہ اور معصیت سے منع کرنا[میاں صاحب]کی ذمہ داری ہے،وہ واپس آنے پر خود ہی گھر میں موجود برائی یا برائیوں سے نمٹ لیں گے۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر،اور مسلمان بہن بھائیوں کو[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر]کے متعلق خواتین کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے ارادے سے[نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری]
[کتاب وسنت اور مسلمان عورتوں کی سیرت کی روشنی میں]کے عنوان سے اس کتاب کی تیاری کا عزم کیا ہے۔
[1] یہ بات متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : راقم السطور کی کتاب [الحسبۃ : تعریفہا ومشروعیتہا ووجوبہا] ص ۲۱۔ ص۶۷