کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 293
ام سلیمان الشفاء رضی اللہ عنہا کو بازار میں احتساب کی غرض سے متعین فرمایا۔درج ذیل دو باتوں کی روشنی میں اس استدلال کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے:
1۔ یہ کہانی سرے سے ثابت ہی نہیں۔امام ابو بکر ابن العربی نے اس کے متعلق تحریر کیا ہے:
((وَقَدْ رُوِي أَنَّ عُمَرَ رضی اللّٰه عنہ قَدَّمَ امْرَأَۃً عَلَی حِسْبَۃِ السُّوْقِ،وَلَمْ یَصِحَّ،فَلاَ تَلْتَفِتُوْا إِلَیْہِ،فَإِنَّمَا ہُوَ مِنْ دَسَائِسِ الْمُبْتَدِعَۃِ فِي الْحَدِیْثِ۔))[1]
’’یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو بازار میں احتساب کی غرض سے متعین کیا،لیکن یہ صحیح نہیں۔اس[کہانی]کی طرف توجہ نہ کرو،یقینا یہ تو بدعتی لوگوں کی جانب سے حدیث میں داخل کردہ جھوٹی باتوں میں سے ہے۔‘‘
2۔ اگر یہ قصہ ثابت بھی ہو،تو اس سے مراد یہ نہیں کہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں باقاعدہ محتسبہ کی حیثیت سے بازارمیں مقرر کر رکھا تھا،بلکہ جن کتابوں میں اس کا ذکر ہے،وہ یہ ہے کہ کبھی کبھی وہ بازار کا کوئی معاملہ ان کے سپرد کر دیتے۔چنانچہ[الاستیعاب]اور[الإصابۃ]کے الفاظ ہیں:
((وَرُبَمَا وَلاَّہَا شَیْئًا مِنْ أَمْرِ السُّوْقِ۔))[2]
’’کبھی کبھار بازار کے کسی معاملے کو ان کے سپرد کر دیتے۔‘‘
قاضی ابو العباس احمد بن سعید مجیلدیرحمہ اللہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
((إِنَّ الْحُکْمَ لِلْغَالِبٍ،وَالنَّادِرُ لاَّ حُکْمَ لَہُ،وَتِلْکَ الْقَضِیَّۃُ مِّنَ النُّدُوْرٍ بِمَکَانٍ۔))[3]
[1] أحکام القرآن ۳/۱۴۵۷۔
[2] ملاحظہ ہو : الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب ۴/۱۸۶۹ ؛ والإصابۃ في تمییز الصحابۃ ۸/۱۲۱ ، نیز دیکھئے : أعلام ۳/۲۴۶ للزرکلي ۔
[3] التیسیر في أحکام التسعیر ص۳۴۔