کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 277
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے رایوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:بلوغ المرام ص ۲۹۳)۔
ا۔ ((لاَ تُزَوِّجُ الْمَرَأَۃُ نَفْسَہَا،فَإِنَّ الْبَغِيَّ ہِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَہَا۔))[1]
’’عورت اپنی شادی خود نہ کرے،بلا شک وشبہ[فاحشہ]عورت ہی اپنی شادی خود کرتی ہے۔‘‘
ب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((إِنَّ الَّتِيْ تُزَوِّجُ نَفْسَہَا ہِيَ الْفَاجِرَۃُ۔))[2]
’’یقینا جو عورت اپنی شادی خود کرتی ہے وہ[فاجرہ]ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا:
((کُنَّا نَتَحَدَّثَ الَّتِي تُنْکِحُ نَفْسَہَا ہِيَ الزَانِیَۃُ۔))[3]
’’ہم کہا کرتے تھے کہ خود اپنا نکاح کرنے والی[زانیہ]ہے۔‘‘
ج حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
((اَلْبَغَایَا اللَّا ئِيْ یَتَزَوَّجْنَ بِغَیْرِ وَلِيٍّ۔))[4]
’’[فاحشہ عورتیں]وہ ہیں جو ولی کے بغیر شادی کرتی ہیں۔‘‘
جب صورت حال یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں عورت کو خود اپنا نکاح کرنے کا کلی اختیار نہیں دیا گیا،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بازاروں میں مردوں اور عورتوں پر احتساب کا معاملہ کسی خاتون کے سپرد کر دیا جائے ؟
رب کعبہ کی قسم ! ایسا کرنا اس مسکین عورت پر بہت بڑا ظلم ہے،اور ان پر بھی ظلم ہے جن کے احتساب کی غرض سے اس خاتون کا تقرر کیا گیا۔
[1] منقول از: مجموع فتاویٰ شیخ الإسلام ابن تیمیہ ۳۲ / ۱۳۱۔
[2] سنن الدار قطني ، کتاب النکاح ، رقم الروایۃ ۲۶ ، ۳/۲۲۷۔
[3] المرجع السابق ۳/۲۲۷۔
[4] مصنف عبدالرزاق ۶/۱۹۷۔