کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 264
کسی کی بھی بات کی کوئی حیثیت نہیں۔اس کی مخالف ہر بات کو چھوڑا جائے گا،لیکن اس کو کسی کی وجہ سے بھی نہ چھوڑا جائے گا۔امام نووی رحمہ اللہ نے کتنی عمدہ بات فرمائی ہے: ((إِذَا ثَبَتَتْ السُّنَّۃُ لاَ تُتْرَکُ لِتَرْکِ بَعْضِ النَّاسِ،أَوْ أَکْثَرِہُمْ،أَوْ کُلِّہِمْ۔))[1] ‘’جب سنت ثابت ہو جائے تو اس کو کچھ لوگوں کے،یا اکثریت کے،یا سب لوگوں کے چھوڑنے کی بنا پر ترک نہ کیا جائے گا۔‘‘ ٭٭٭ (۵)قریشی خاتون کا حق مہر کے متعلق فاروقی اعلان پر احتساب امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تشریف لائے،اور لوگوں کو ایک مقررہ مقدار سے زیادہ حق مہر دینے سے منع فرمایا۔اس پر ایک قریشی خاتون نے ان کا احتساب کیا۔ دلیل: امام ابو یعلی رحمہ اللہ نے مسروق ؒسے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ((رَکِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ مِنْبَرَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ثُمَّ قَالَ:’’أَیُّہَا النَّاسُ ! مَا إِکْثَارُکُمْ فِي صَدَاقِ النِّسَائِ،وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَالصَّدَقَاتُ فِیْمَا بَیْنَہُمْ أَرْبَعَمِائَۃُ دِرْہَمٍ فَمَا دُوْنَ ذٰلِکَ۔وَلَوْ کَانَ الْإکْثَارُ فِي ذٰلِکَ تَقْوَی عِنْدَ اللّٰهِ أَوْ
[1] شرح النووي ۸/۵۶۔