کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 261
’’جب حجاج نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما پر قابو پایا،تو انہیں قتل کر دیا،اور ان کا مثلہ [1]کیا،پھر ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے ہاں آیا،توانہوں نے فرمایا:’’تو میرے ہاں داخل ہونے کی اجازت کیسے طلب کر رہا ہے،اور تو نے تو میرے بیٹے کو قتل کیا ہے ؟’‘[2] وہ کہنے لگا:’’تیرے بیٹے نے حرم الٰہی میں الحاد کیا،اور میں نے اس کو اس کے الحاد اور نافرمانی ہی کی حالت میں قتل کیا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دردناک عذاب چکھایا،اور اس کے ساتھ ایسے ایسے کیا۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’اے اللہ تعالیٰ کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن ! تو نے جھوٹ بکا ہے ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! بلا شک وشبہ تو نے اس کو ایسی حالت میں قتل کیا ہے کہ وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والا،بہت زیادہ قیام کرنے والا،والدین کیساتھ نیکی کرنے والا،اور اس دین کی حفاظت کرنے والا تھا،اگر تو نے اس کے لیے اس کی دنیا کو برباد کیا ہے،تو یقینا اس نے تیرے لیے تیری آخرت کو برباد کر دیا ہے۔بلا شک وشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا تھا کہ ثقیف[قبیلے]سے دو بہت بڑے جھوٹے نمودار ہوں گے،ان میں سے
[1] کان ، ناک اور دیگر اعضاء کاٹ ڈالنے کو مثلہ کہتے ہیں ۔ [2] صحیح مسلم میں ہے کہ حجاج نے [ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کرنے کے بعد] اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا ، لیکن انہوں نے آنے سے انکار کر دیا ۔ اس نے دوبارہ قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا : ’’تم خود آ جائو ، وگرنہ میں تمہاری طرف کسی ایسے شخص کو بھیجوں گا ، جو تمہیں بالوں سے گھسیٹ کر لائے گا۔‘‘ انہوں نے پھر بھی اس کے ہاں جانے سے انکار کیا ، اور پیغام بھیجا : ’’وَاللّٰهِ ! لاَ آتِیْکَ حَتَّی تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ یَسْحَبُنِيْ بِقُرُوْنِيْ ۔‘‘ ’’اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں تب تک تمہارے پاس نہ آئوں گی ، جب تک کہ تم میری طرف ایسا شخص نہ بھیجو گے ، جو کہ مجھے میرے بالوں کے ساتھ [پکڑ کر] گھسیٹ کر نہ لے جائے۔‘‘ اس پر حجاج نے اپنی جوتی طلب کی ، اور جوتی پہن کر تیزی سے ان کے ہاں پہنچا ۔ (ملاحظہ ہو : صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب ذکر کذَّاب ثقیف ومبیرہا ، رقم الحدیث ۲۲۹ ، ۴/۱۹۷۱ - ۱۹۷۲)۔