کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 260
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں آ کر ان پر الزامات تراشنے شروع کیے۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس کے الزامات کی تردید کی،اور اس پر واضح کیا کہ وہ جھوٹ بک رہا ہے۔ دلیل: امام حاکم رحمہ اللہ نے ابو صدیق رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ: ((لَمَا ظَفَرَ الْحَجَّاجُ عَلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ رضی اللّٰه عنہ،فَقَتَلَہُ وَمَثَّلَ بِہِ،ثُمَّ دَخَلَ عَلَی أُمِّ عَبْدِ اللّٰهِ،وَہِيَ أَسْمَائُ بِنْتُ أَبِيْ بَکْرٍ رضی اللّٰه عنہما،فَقَالَتْ:’’کَیْفَ تَسْتَأْذِنَ عَلَيَّ،وَقَدْ قَتَلْتَ ابْنِيْ؟‘‘ فَقَالَ:’’إِنَّ ابْنَکَ أَلْحَدَ فِيْ حَرَمِ اللّٰهِ،فَقَتَلْتُہُ مُلْحِدًا عَاصِیًا،حَتَّی أَذَاقَہُ اللّٰهُ عَذَابًا أَلِیْمًا،وَفَعَلَ بِہِ وَفَعَلَ۔‘‘ فَقَالَتْ:’’کَذَبْتَ یَا عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّ الْمُسْلِمِیْنَ ! وَاللّٰهِ ! لَقَدْ قَتَلْتَہُ صَوَّامًا قَوَّامًا بَرًّا بِوَالِدَیْہِ حَافِظًا لِہٰذَا الدِّیْنِ۔وَلَئِنْ أَفْسَدَتَّ عَلَیْہِ دُنْیَاہُ لَقَدْ أَفْسَدَ عَلَیْکَ آخِرَتَکَ۔وَلَقَدْ حَدَّثَنَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:أَنَّہُ یَخْرُجُ مِنْ ثَقِیْفٍ کَذَّابَانِ،اَلْآخَرُ مِنْہُمَا أَشَرُّ مِنَ الْأَوَّلِ،وَہُوَ الْمُبِیْرُ،وَمَا ہُوَ إِلاَّ أَنْتَ یَا حَجَّاجُ !۔‘‘))[1]
[1] المستدرک الصحیحین ، کتاب الفتن والملاحم ، ۴/۵۲۶۔ امام حاکم ؒ نے اس روایت کو [صحیح الإسناد] قرار دیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو : المرجع السابق ۴/۵۲۶) ؛ اور حافظ ذہبی ؒ نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے ۔ (ملاحظہ ہو : التلخیص ۴/۵۲۶)۔ امام احمد نے بھی اسی معنی کی روایت نقل کی ہے ۔ (ملاحظہ ہو : المسند ۶ /۳۶۱ ؛ و ۶/۳۵۲)۔ اس واقعے کی اصل صحیح مسلم میں بھی موجود ہے ۔ (ملاحظہ ہو : صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب ذکر کذَّاب ثقیف ومبیرہا ، رقم الحدیث ۲۲۹ ، ۴/۱۹۷۱ - ۱۹۷۲)۔