کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 252
لیکن اس کا مقصود یہ بھی نہیں کہ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ہی بے خوف کر دیا جائے۔وعظ ونصیحت کی صحیح صورت یہ ہے کہ رحمت ِ الٰہی کی امید،اورعذابِ الٰہی کا خوف،دونوں ہی کو دلوں میں پیدا کرنے،اور بیدار کرنے کی کوشش کی جائے۔ ٭٭٭ (۱۹)مذمت ِ دنیا کی آڑ میں ذکر دنیا میں کھونے پر رابعہ رحمہ اللہ کی تنقید تین اشخاص حضرت رابعہ عدویہ رحمہ اللہ کے پاس اکٹھے ہوئے۔وہ مذمت دنیا کی آڑ میں دنیا ہی کے تذکروں میں محو ہو گئے،اس پر انہوں نے ان پر تنقید فرمائی۔ دلیل: حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ نے ازہر بن مروان رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ: ((دَخَلَ عَلَی رَابِعَۃَ رِبَاحُ الْقَسِّيُ وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الْجَلِیْلِ،وَکِلاَبٌ،فَتَذَاکُرُوْا الدُّنْیَا،فَأَقْبَلُوْا یَذَمُّوْنَہَا،فَقَالَتْ رَابِعَۃُ:’’إِنِّي لَأَرَی اَلدُّنْیَا بِتَرَابِیْعِہَا فِي قُلُوْبِکُمْ۔‘‘ قَالُوْا:’’وَمِنْ أَیْنَ تَوَہَّمْتِ عَلَیْنَا؟‘‘ قَالَتْ:’’إِنَّکُمْ نَظَرْتُمْ إِلَی أَقْرَبِ الْأَشْیَائِ مِنْ قُلُوْبِکُمْ فَتَکَلَّمْتُمْ فِیْہِ۔‘‘))[1] ’’رباح قسی،صالح بن عبدالجلیل،اورکلاب رابعہ رحمہ اللہ [2]کے پاس حاضر
[1] صفۃ الصفوۃ ۴/۲۸ - ۲۹۔ [2] (رابعہ ؒ) : ان کے متعلق حافظ ذہبی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ وہ بصرہ کی رہنے والی ، پرہیزگار ، عبادت گزار ، اور اللہ تعالیٰ کے لیے خشوع وخضوع کرنے والی تھیں ۔ ان کی کنیت ام عمرو اور نام رابعہ بنت اسماعیل تھا ۔ (ملاحظہ ہو : سیر أعلام النبلاء ۸/۲۴۱)۔