کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 248
’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے اہل مدینہ کے واعظ ابن ابی سائب رحمہ اللہ سے فرمایا:’’تین باتوں کی پابندی کا مجھ سے عہد کرو،وگرنہ میں تم سے جھگڑا کروں گی۔‘‘ انہوں نے عرض کی:’’وہ باتیں کیا ہیں ؟ اے ام المومنین ! میں آپ سے ان کی پابندی کا عہد کرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’سجع دعا [1] سے اجتناب کرو،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اس طرح سے دعا نہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اسماعیل[حدیث کے ایک راوی]نے ایک مرتبہ[یوں]بیان کیا:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانوں کو پایا،وہ ایسا نہ کرتے تھے۔‘‘ اور ہر جمعے[یعنی ہر ہفتے]میں ایک دفعہ لوگوں کو وعظ کرنا،اور اگر تو اس پر راضی نہ ہو،تو دو مرتبہ،اور اگر تو اس پر بھی راضی نہ ہو،تو تین دفعہ۔لوگوں کو اس کتاب[قرآن کریم]سے بیزار نہ کر دینا۔ اور میں تجھے اس طرح نہ دیکھوں کہ لوگ اپنی باتوں میں مشغول ہوں،اور تو آتے ہی ان کی گفتگو کو منقطع کر کے[وعظ شروع کر دے]۔لوگوں کو[اپنی باتوں میں مشغول]رہنے دو،ہاں اگر وہ تجھ سے وعظ کی فرمائش کریں،تو ان کو نصیحت کرنا۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 احتساب کے درجات میں سے ایک درجہ[دھمکی دینا]ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس درجہ کو استعمال فرمایا۔اس درجہ کا استعمال ہرکس وناکس کے لیے مفید اور مناسب نہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ام المومنین رضی اللہ عنہا کے مقام ومرتبے کی
[1] سجع دعا سے مراد یہ ہے کہ دعا میں ازراہ تکلف موزوں ومقفی جملے استعمال کرنا ، اگر بلا تکلف ایسے جملے دعا میں آ جائیں تو کچھ حرج نہیں ۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : غریب الحدیث للحافظ ابن الجوزي ، باب السین مع الجیم ، ۱/۴۶۳)۔