کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 239
ابن عمر رضی اللہ عنہما]سے پوچھا۔‘‘انہوں نے فرمایا:’’بدعت ہے۔’‘[1]
پھر انہوں[عروہؒ]نے ان سے سوال کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟‘‘
انہوں نے فرمایا:’’چار،ان میں سے ایک رجب میں تھا۔‘‘
ہم نے ان کی تردید کرنامناسب نہ سمجھا۔
راوی نے بیان کیا:’’ہم نے حجرے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسواک کرنے کی آواز کو سنا،تو عروہ رحمہ اللہ نے آواز دی:’’اے میری ماں ! [2] اے ام المومنین ! کیا آپ ابو عبدالرحمن کی بات سن رہی ہیں ؟‘‘
انہوں نے فرمایا:’’وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘
انہوں نے کہا:’’وہ کہہ رہے ہیں:’’یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے،ان میں سے ایک رجب میں تھا۔‘‘
انہوں نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے ! وہ تو ہر عمرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی رجب میں عمرہ ادا نہیں کیا۔‘‘
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
((وَابْنُ عُمَرَ رضی اللّٰه عنہما یَسْمَعُ،فَمَا قَالَ:لاَ،وَلاَ نَعَمْ۔سَکَتَ۔‘‘))[3]
[1] قاضی عیاض اور دیگر علماء نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تنقید کا سبب یہ نہ تھا کہ ان کی رائے میں نماز چاشت سنت کے خلاف تھی ، بلکہ ان کا احتساب اس کے ادا کرنے میں التزام کرنے ، مسجد میں اس کا اظہار کرنے ، اور اس کے باجماعت ادا کرنے پر تھا ۔ (ملاحظہ ہو : فتح الباري ۳/۵۳)۔
[2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، عروہ ؒ کی خالہ تھیں ۔ اسی وجہ سے انہوں نے پہلے انہیں [اے میری ماں ] کے الفاظ سے آواز دی ۔ (ملاحظہ ہو : المرجع السابق ۳/۶۰۱)۔
[3] صحیح مسلم ، کتاب الحج ، باب بیان عدد عمر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وأزمانہنّ ، رقم الحدیث ۲۱۹ (۱۲۵۵) ، ۲/۹۱۶۔