کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 231
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے: ((وَکَذَا کَانَ سَالِمٌ(وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللّٰه عنہما یُخَالِفُ أَبَاہُ،وَجَدَّہَ فِيْ ذٰلِکَ لِحَدِیْثِ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا۔وَقَالَ:’’سُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَحَقُّ أَنْ تُتَّبَعَ۔‘‘))[1] اسی طرح(عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ایک دوسرے بیٹے)سالم رحمہ اللہ بھی عائشہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی بنا پر اپنے والد اور دادا کی رائے سے اختلاف کرتے تھے۔انہوں نے کہا تھا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اتباع کی زیادہ حق دار ہے۔‘‘ ٭٭٭ (۱۱)فہم آیت میں غلطی پر عائشہ رضی اللہ عنہاکا احتساب حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خالۂ محترمہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتلایا کہ وہ آیت کریمہ {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا} [2] کی روشنی میں یہ سمجھتے ہیں کہ حج وعمرے میں صفا ومروہ کے درمیان سعی چھوڑنے
[1] فتح الباري ۳/۳۹۸ ؛ نیز ملاحظہ ہو : المسند ، للإمام أحمد ۶/۱۰۶ ؛ وترتیب مسند الإمام الشافعي، کتاب الحج ، الباب الرابع : فیما یلزم المحرم عند تلبسہ الإحرام ، رقم الروایۃ ۷۷۹، ۱/۲۲۹ ؛ والسنن الصغیر للإمام البیہقي ۲/۱۹۸۔ [2] سورۃ البقرۃ / الآیۃ ۱۵۸۔ [ترجمہ : بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نشانات ہیں ، اس لیے جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے ، اس کے لیے ان دونوں کے درمیان طواف کرنے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ۔]