کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 213
عذاب دیا جائے گا۔’‘[1] قصے سے مستفاد باتیں: 1 دوران احتساب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نرمی اور ادب واحترام کا رویہ اختیار کیا۔یہ بات درج ذیل امور سے واضح ہوتی ہے: ا انہوں نے احتساب کی ابتدا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے دعا کے ساتھ کی کہ’’اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے‘‘،’’اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے۔‘‘ ب انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر،ان کی کنیت[ابو عبدالرحمن]کے ساتھ کیا۔اہل عرب کے ہاں نام کی بجائے کنیت ذکر کرنے میں عزت وتکریم سمجھی جاتی ہے۔ ج انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ ان کی رائے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی غلطی کا سبب جھوٹ نہیں،بلکہ بھول یا چوک ہے۔ 2 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے احتساب میں قوت اور زور تھا۔اس کا اظہار انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے پس منظر سے آگاہ ہونے اور اس کو یاد رکھنے کے ذکر سے کیا،جب کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یا تو اس سے آگاہ ہی نہ تھے،یا اس کو بھول چکے تھے۔ ٭٭٭
[1] میت کے گھر والوں کے رونے کی بنا پر میت کو عذاب کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے ۔ جمہور علمائے امت کی رائے میں گھر والوں کے میت کی وصیت پر رونے پیٹنے کے سبب تو میت کو عذاب ہو گا ، وگرنہ نہیں ۔ بعض علماء کی رائے میں اہل خانہ کو رونے پیٹنے سے منع نہ کرنے پر بھی ان کے رونے پیٹنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہو گا ۔ اس بارے میں علمائے امت کے کچھ اور اقوال بھی ہیں ۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : صحیح البخاري ۳/۱۵۰-۱۵۱ ؛ وشرح النووي ۶/۲۲۸-۲۳۰ ؛ وفتح الباري ۳/۱۵۲-۱۶۰)۔