کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 191
’’میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر ہوا،تو انہوں نے مجھ سے فرمایا:’’کیا تمہارے روبرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟‘‘
میں نے کہا:’’معاذ اﷲ’‘یا’’سبحان اﷲ’‘یا اس طرح کا کوئی اور جملہ کہا۔
انہوں نے کہا:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’جس نے علی(رضی اللہ عنہ)کو گالی دی،یقینا اس نے مجھے گالی دی۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابو عبداللہ جدلی نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی:
((أَنّٰی یُسَبِّ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے گالی دی جاتی ہے ؟‘‘
انہوں نے فرمایا:
((أَلَیْسَ یُسَبُّ عَلِيٌ رضی اللّٰه عنہ وَمَنْ یُحِبُّہُ،وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُحِبُّہُ۔))[1]
’’کیا علی(رضی اللہ عنہ)اور ان سے محبت کرنے والے کو گالی نہیں دی گئی ؟ اور بلاشک وشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے۔‘‘
قصے سے مستفاد باتیں:
1 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ کس قدر بلند وبالا تھا۔
[1] ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد ، کتاب المناقب ، باب مناقب علي بن أبي طالبٍ رضی اللّٰه عنہ ، باب منہ جامع فیمن یحبّہ ومن یبغضہ ، ۹/۱۳۰۔حافظ ہیثمی ؒ نے اس روایت کے متعلق تحریر کیا ہے کہ طبرانی نے تینوں [معاجم] میں ، اور ابویعلی نے اس کو روایت کیا ہے ۔ اور ابو عبداللہ الجدلی کے سوا طبرانی کے راوی [صحیح] کے راویوں میں سے ہیں ، اور ابو عبداللہ الجدلی بھی ثقہ ہے ۔ طبرانی نے اسی معنی کی ایک اور روایت ایک دوسری سند کے ساتھ بھی اس کے بعد روایت کی ہے ، اور اس کے سارے روایت کرنے والے اشخاص ثقات ہیں ۔ (ملاحظہ ہو : المرجع السابق ۹/۱۳۰)۔