کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 179
نے بیان کیا:
((إِنَّ سَائِلاً وَقَفَ عَلَی بَابِہِمْ،فَقَالَتْ لَہُ جَدَّتُہُ حَوَّائُ رضی اللّٰه عنہا:’’أَطْعِمُوْہُ تَمْرًا۔‘‘
قَالُوْا:’’لَیْسَ عِنْدَنَا۔‘‘
قَالَتْ:’’فَاسْقُوْہُ سَوِیْقًا۔‘‘
قَالُوْا:’’اَلْعَجَبُ لَکَ نَسْتَطِیْعُ أَنْ نُطْعِمَہُ مَا لَیْسَ عِندِنَا۔‘‘
قَالَتْ:إِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ:’’لاَ تَرُدُّوْا السَّائِلَ وَلَوْ بِظِلْفٍ مُحْرَقٍ۔‘‘))[1]
’’ایک سائل ان کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔ان کی دادی حواء(رضی اللہ عنہا)نے اس کو کہا:’’اس کو ایک کھجور کھلائو۔‘‘
انہوں[اہل خانہ]نے کہا:’’ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔‘‘
انہوں[ان کی دادی]نے کہا:’’تو اس کو ستو پلا دو۔‘‘
انہوں نے کہا:’’آپ عجیب[بات کہہ رہی]ہیں۔کیا ہم اس کو ایسی چیز کھلا سکتے ہیں جو ہمارے پاس موجود ہی نہیں ؟‘‘
انہوں نے کہا کہ یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’سائل کو[خالی ہاتھ]واپس نہ کرو۔اور کچھ میسر نہ ہو تو[گائے یا بکری کے]پائے کا جلا ہوا نچلا حصہ ہی دے دو۔‘‘
[1] المسند ۶/۴۳۵۔ اس حدیث کو امام نسائی نے بھی روایت کیا ہے ۔ اور شیخ البانی ؒ نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو : صحیح سنن النسائي ، کتاب الزکاۃ ، باب ردّ السائل ، رقم الحدیث ۲۴۰۵، ۲/۵۴۱-۵۴۲)۔ حضرات ائمہ ابوداود ؒ ، الترمذی ؒ اور نسائی ؒ نے ام بجید رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بھی اسی معنی کی حدیث کو روایت کیا ہے ، اور شیخ البانی ؒ نے اس کو [صحیح] کہا ہے : (ملاحظہ ہو : صحیح سنن أبي داود ۱/۳۱۳ ؛ وصحیح سنن الترمذي ۱/۲۰۳-۲۰۴ ؛ وصحیح سنن النسائي ۲/۵۴۳-۵۴۴)۔