کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 166
فَمَرَّ سَعْدٌ،وَعَلَیْہِ دِرْعٌ لَہُ،مُقَلِّصِۃٌ،وَقَدْ خَرْجَتْ مِنْہَا ذِرَاعُہُ کُلُّہَا،وَفِيْ یَدِہِ حِرْبَۃٌ یَرْفُلُ بِہَا،وَیَقُوْلُ: لَبِّثْ قَلِیْلاً یَشْہَدَ الْہَیْجَآئَ جَمَلٌ لاَ بَأْسَ بِالْمَوْتِ إِذَا حَانَ الْأَجَلُ فَقَالَتْ أُمُّہ:’’اِلْحَقْ أَيْ بُنَيَّ ! فَقَدْ وَاللّٰهِ ! أَخَّرْتَ۔‘‘))[1] ’’یقینا وہ غزوہ خندق کے موقع پر بنو حارثہ کے قلعے میں تھیں جو کہ مدینہ کا سب سے محفوظ قلعہ تھا۔ام سعد رضی اللہ عنہابھی اسی قلعے میں تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ تب ہم پر پردہ فرض نہیں کیا گیا تھا۔سعد رضی اللہ عنہ[وہاں سے]گزرے،اور انہوں نے گھنی گرہوں والی زرہ پہن رکھی تھی،اور اس میں سے ان کی ساری کہنی باہر نکلی ہوئی تھی،اور وہ ہاتھ میں خنجر تھامے متکبرانہ چلتے ہوئے یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے[جس کا ترجمہ یہ ہے] تھوڑی دیر ٹھہرو،لڑائی میں جمل[نامی شخص]پہنچ رہا ہے۔وقت ِ موت آنے کے بعد مرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ ان کی ماں نے کہا:’’اے میرے پیارے بیٹے ![لشکر اسلامی کے ساتھ جلدی]شامل ہو جائو تم نے واللہ ! تاخیر کر دی ہے۔‘‘ قصے پر تعلیق: اللہ اکبر ! معرکہ ئِ کارزار کی طرف مجاہد کے جانے پر ماں کو نہ حسرت وافسوس ہے،نہ رنج وغم۔وہاں نہ چیخ وپکار تھی،اور نہ شوروغل،نہ رونا پیٹنا تھا اور نہ ہی نوحہ وماتم،بلکہ ماں نے بیٹے کو جلد اسلامی لشکر میں جا کر شامل ہونے کا حکم دیا۔رَضِيَ اللّٰهُ عَنْہَا وَعَنِ
[1] السیرۃ للنبویۃ لابن ہشام ۳/۱۳۶۔ حافظ ذہبی نے ابن اسحاق کے حوالے سے اس روایت کو اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء ۱/۲۸۱-۲۸۲ میں بھی نقل کیا ہے ، اور شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے راویوں کو [ثقہ] قرار دیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو : ہامش سیر أعلام النبلاء ۱/۲۸۲)۔