کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 158
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں لکھا ہے: ((وَقَدْ کَتَبَتْ إِلَیْہِ عَمْرَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ تُعَظِّمُ عَلَیْہِ مَا یُرِیْدُ أَنْ یَصْنَعَ،وَتَأْمُرُہُ بِلُزُوْمِ الْجَمَاعَۃِ،وَتُخْبِرُہُ أَنَّہُ إِنَّمَا یُسَاقُ إِلَی مَصْرَعِہِ،وَتَقُوْلُ:أَشْہَدُ لَحَدَّثَتْنِيْ عَائِشَۃُ رضی اللّٰه عنہا أَنَّہَا سَمِعَتْ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ:’’یُقْتَلُ حُسَیْنٌ بِأَرْضِ بَابِلَ۔‘‘))[1] ’’ان[حضرت حسین رضی اللہ عنہ]کے اس اقدام یعنی کوفہ جانے کی سنگینی سے آگاہی،اور جماعت کے ساتھ چمٹے رہنے کی ضرورت کے متعلق انہوں[عمرہؒ]نے انہیں لکھا۔نیز انہوں نے اس بات سے بھی انہیں متنبہ کیا کہ وہ اپنے مقتل [2]کی طرف کھینچے جا رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا:’’میں گواہی دیتی ہوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتلایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’سرزمین بابل میں حسین(رضی اللہ عنہ)کو قتل کیا جائے گا۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عالی مقام،عمرہ انصاریہ رحمہ اللہ کے لیے اپنی دانست کے مطابق ان کی خدمت عالیہ میں درست بات واضح انداز میں عرض کرنے سے رکاوٹ نہ بن سکا۔ 2 حضرت عمرہ رحمہ اللہ نے اپنی بات کی تایید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا۔ ٭٭٭
[1] تاریخ الإسلام (حوادث ووفیات ۶۱-۸۰ ھـ) ص۹ ؛ نیز ملاحظہ ہو : سیر أعلام النبلاء ۳/۲۹۶-۲۹۷۔ [2] قتل گاہ۔