کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 125
دلیل: امام بخاری رحمہ اللہ نے محمد بن ابراہیم سے روایت نقل کی ہے کہ: ((أَنَّ أَبَا سَلَمَۃَ حَدَّثَہُ أَنَّہُ کَانَتْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أُنَاسٍ خُصُوْمَۃٌ،فَذَکَرَ لِعَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا فَقَالَتْ:’’یَا أَبَا سَلَمَۃَ ! اِجْتَنِبْ الأَرْضَ فَإِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ:’’مَنْ ظَلَمَ قِیْدَ شِبْرٍ مِنَ الأَرْضِ طُوِّقَہُ مِنْ سَبْعِ أَرْضِیْنَ۔‘‘))[1] ’’ابو سلمہ نے انہیں بتلایا کہ ان کے اور کچھ لوگوں کے درمیان تنازعہ [2] تھا۔انہوں نے اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا،تو انہوں نے فرمایا:’’اس زمین کو چھوڑ دو۔یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے بالشت برابر زمین کا ظلم کیا [3] اس کو سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔’‘[4] قصے سے مستفاد باتیں: 1 دین خیر خواہی کا نام ہے،اور خیر خواہی کی ایک بہترین شکل یہ ہے کہ اپنے احباب ومعارف کو گناہ سے بچانے کی کوشش کی جائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوسلمہ رحمہ اللہ کے ساتھ یہی طریقہ اختیار فرمایا۔خیر خواہی یہ نہیں کہ ہر تنازعہ میں،اور ہر
[1] صحیح البخاري ، کتاب المظالم ، باب إثم من ظلم شیئا من الأرض ، رقم الحدیث ۲۴۵۳ ، ۵/۱۰۳۔ امام احمد ؒ نے بھی اس سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے ۔ (المسند ۶/۷۹ ، ۲۵۲)۔ [2] صحیح مسلم کی روایت میں ہے :((وَکَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قَوْمٍ خَصُوْمَۃٌ فِي أَرْضٍ۔)) (صحیح مسلم ، کتاب المظالم ، باب إثم من ظلم شیئا من الأرض ، رقم الحدیث۳۲/۱۲۳۱)۔ (ان کے اور ایک قوم کے درمیان زمین میں تنازعہ تھا) [3] یعنی بالشت برابر زمین بھی کسی دوسرے کی ظلم سے لے لی ۔ [4] زمین کے سات طبق ہیں ، اس کو زمین کے ساتویں طبق تک دھنسایا جائے گا اور زمین کا ہر طبق اس کی گردن میں ہار کی طرح ہو گا ۔ (ملاحظہ ہو : فتح الباري ۵/۱۰۴)۔