کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 119
صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ،أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ،أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ۔))[1] ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین[صورتوں]کے سوا اس کے[نیک]اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے:صدقہ جاریہ سے،یا علم جس کا فیض جاری رہے،یا اس کے لیے دعا کرنے والا نیک بیٹا۔‘‘ 2 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نیکیوں کے کمانے کے بہت ہی دلدادہ،بلکہ اس بارے میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتے تھے۔حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے انہیں شادی کا حکم دیتے وقت شادی کے متعدد فوائد میں سے اسی فائدے کا ذکر کیا جو ان کے مزاج کے عین مطابق تھا۔اور احتساب کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ دوران احتساب محتسب علیہ کے مزاج کا شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے خیال رکھا جائے۔[2] ٭٭٭ (۱۹)عائشہ رضی اللہ عنہا کا ابن ہشامرحمہ اللہ کو عورتوں سے علیحدگی سے روکنا حضرت سعد بن ہشام ؒنے رومیوں کے خلاف جہاد میں شرکت کی غرض سے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔پھر مدینہ طیبہ آئے تاکہ اپنی غیر منقولہ جائیداد کو فروخت کر کے سامان جنگ خرید کر جہاد کے لیے نکل جائیں۔[3] انہوں نے اپنے اس پروگرام کا حضرت
[1] صحیح مسلم ، کتاب الوصیۃ ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ ، رقم الحدیث ۱۴ (۱۶۳۱) ، ۳/۱۲۵۵۔ [2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : راقم السطور کی کتاب : من صفات الداعیۃ : مراعاۃ أحوال المخاطبین۔ [3] صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے : ((أَنَّ سَعْدَ بْنَ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ یَغْزُو فِي سَبِیْلِ اللّٰهِ ، فَقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ، فَأَرَادَ أَنْ یَبِیْعَ عِقَاراً لَہُ بِہَا فَیَجْعَلُہُ فِي السَّلاَحِ وَالْکَرَاعِ ، وَیُجَاہِدُ الرُّوْمَ حَتَّی یَمُوْتَ))’’سعد بن ہشام نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا ارادہ کیا ، مدینہ طیبہ ۔۔