کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 116
ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ٭٭٭ (۱۷)ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مسکین کو کچھ دے کر بھیجنے کا حکم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں کچھ مسکین لوگ آئے،اور اصرار وتکرار سے سوال کیا۔ایک عورت نے انہیں باہر نکل جانے کا حکم دیا،تو انہوں نے اس عورت کو ایسے کہنے سے منع کر دیا،اور حکم دیا کہ ہر مسکین کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی واپس بھیجا جائے۔ دلیل: حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ام الحسین رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ: ((أَنَّہَا کَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَۃَ رضی اللّٰه عنہا،فَأَتَی مَسَاکِیْنُ،فَجَعَلُوْا یُلِحُّوْنَ،وَفِیْہِمْ نِسَائٌ،فَقُلْتُ:’’اُخْرُجُوْا…أَوِ اخْرُجْنَ- فَقَالَتْ أُمِّ سَلَمَۃَ رضی اللّٰه عنہا:’’مَا بِہٰذَا أُمِرْنَا یَا جَارِیَۃُ! … رُدِّيْ کُلَّ وَاحِدٍ…أَوْ وَاحِدَۃٍ…وَلَوْ بِتَمْرَۃٍ تَضَعِیْہَا فِيْ یَدِہَا۔‘))[1] ’’وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھیں۔کچھ مسکین لوگ آئے،اور ان سے اصرار وتکرار کے ساتھ سوال کیا۔انہی[مسکینوں]میں عورتیں بھی تھیں،میں نے[ان سے]کہا:’’نکل جائو۔‘‘ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’اے لڑکی ! ہمیں اس بات کا حکم نہیں دیا گیا،[2] کم
[1] الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب ۴/۱۹۳۹-۱۹۴۰ [2] ہمیں اس بات کا تو حکم نہیں دیا گیا) حضرات صحابہ میں سے کوئی ایسا جملہ استعمال کرے تو وہ حکماً مرفوع ہوتا ہے ، یعنی ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کا نہیں ، بلکہ اس کے برعکس کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو : لمحات في أصول الحدیث ص۲۱۶)۔