کتاب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری - صفحہ 107
قَالَتْ:’’اِجْلِسْ۔‘‘
قَالَ:’’إِنِّيْ أُصَلِّيْ۔‘‘
قَالَتْ:’’اِجْلِسْ غُدَر۔إِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ:’’لاَ صَلاَۃَ بِحَضْرَۃِ الطَّعَامِ،وَلاَ ھُوَ یُدَافِعُہُ الْأَخَبَثَانِ۔’‘))[1]
’’میں نے اور قاسم [2]نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے روبرو گفتگو کی،اور قاسم اپنی گفتگو میں بہت زیادہ لغوی غلطیاں کرتا تھا،اور اس کی ماں[اصل میں]لونڈی تھی۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے فرمایا:’’تم میرے اس بھتیجے کی طرح گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ مجھے تمہاری اصل کا خوب علم ہے۔اس کی تربیت اس کی ماں نے،اور تیری تربیت تیری ماں نے کی ہے۔‘‘
راوی نے بیان کیا:’’قاسم ان کی اس بات پر بہت غضبناک اور ناراض ہوا۔جب اس نے دیکھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا دستر خوان لایا گیا ہے،تو و ہ کھڑا ہو گیا۔‘‘
انہوں[عائشہ رضی اللہ عنہا]نے پوچھا:’’کہاں[جا رہے ہو]؟‘‘
اس نے کہا:’’میں نماز پڑھنے لگا ہوں۔‘‘
انہوں نے فرمایا:’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
اس نے کہا:’’یقینا میں نماز پڑھنے لگا ہوں۔‘‘
انہوں نے فرمایا:اے بے وفا بیٹھ جاؤ ! بلا شک وشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’کھانا آ جانے پر نماز نہیں،اور نہ ہی ایسی حالت میں جب کہ بول وبراز[کی حاجت]اس کو تنگ کر رہی ہو۔‘‘
[1] صحیح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ ، باب کراہۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام … ، رقم الحدیث ۶۷ (۵۶۰) ، ۱/۳۹۳
[2] (قاسم) : وہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ملاحظہ ہو : شرح النووي ۵/۴۷)