کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اسباب - صفحہ 27
’’مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بَیْنَ أَمْرَیْنِ ، أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ ، إِلاَّ اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا ، مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا۔ فَإِنْ کَانَ إِثْمًا ، کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ۔‘‘[1] ’’جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کے چناؤ کا اختیار دیا گیا ، جن میں سے ایک دوسرے سے زیادہ آسان ہوتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسان کام چنتے ، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہوتا۔ اور اگر وہ گناہ ہوتا، توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے تمام لوگوں سے زیادہ دور ہوتے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ کے اخلاقِ عالیہ کی تصویر کشی بایں الفاظ کی ہے: ’’خَدَمْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَشْرَ سِنِیْنَ۔ وَاللّٰہِ! مَا قَالَ لِيْ أُفًّا قَطُّ۔ وَلاَ قَالَ لِيْ لِشَيْئٍ: لِمَ فَعَلْتَ کَذَا؟ وَہَلاَّ فَعَلْتَ کَذَا؟ ‘‘[2] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! آپ نے کبھی بھی مجھے ’’اُف ‘‘ تک نہ کہا ، اور نہ ہی کبھی کسی چیز کے متعلق فرمایا: ’’تو نے (یہ ) کیوں کیا؟اور یہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ صرف یہی نہیں ، بلکہ تاجِ نبوت پہنائے جانے سے قبل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاقِ عالیہ کے ساتھ معرو ف و مشہور تھے۔ اس پر دلالت کناں باتوں میں سے ایک وہ ہے ، جسے امام طبرانی نے بنائے کعبہ کے قصّے کے متعلّق حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
[1] صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب مباعدتہ صلي اللّٰه عليه وسلم للآثام ، واختیارہ من المباح أسھل ، وانتقامہ للّٰہ عند انتہاک حرماتہ ،رقم الحدیث ۷۸ ۔ (۲۳۲۷) ، ۴/۱۸۱۳۔ [2] المرجع السابق ، باب کان رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم أحسن الناس خلقاً ، ۵۱۔ (۲۳۰۹)، ۴/۱۸۰۴۔