کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 94
ادا کرو، رمضان کے روزے رکھواور غنیمت کا پانچواں حصہ [بیت المال کو]ادا کرو۔ دباء، حنتم، نقیر اور مزفت میں نہ پیو۔‘‘[1]
اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہے کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد دین کی باتیں سمجھنے کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انہیں خوش آمدید کہا۔
امام ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے:
’’ [مَرْحَبَا] أَيْ صَادَفْتُمْ رَحْبًا وَسَعَۃً۔ وَفِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی التَّأْنِیْسِ لِلْوَارِدِ، وَذٰلِکَ بِشَرطٍ أَنْ یَکُوْنَ مَا یَأنِسُوْا بِہٖ مُطَابِقًا لِحَالِ الْمُتَکَلِّمِ لِئَلاَّ یُدْرِکَ الْوَارِدُ طَمْعًا فِيالْمَوْرَد عَلَیْہِ فِیْمَا لَا یَقْدِرُ عَلَیْہِ، لِأَنَّ الرَّحْبَ وَالسَّعَۃَ الَّتِيْ أَخْبَرَ بِھَا عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کَانَتْ عِنْدَہٗ حَقِیْقَۃً حِسًّا وَمَعْنيً۔‘‘[2]
’’(مرحبا) یعنی تم کشادہ اور وسیع جگہ آئے ہو۔ اس میں آنے والے کے لیے اظہارِ اُنس کی دلیل ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اظہار متکلم کی حالت کے مطابق ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والا میزبان سے اس چیز کے حصول کا طمع شروع کر دے،جو کہ اس کے بس ہی میں نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وسعت اور کشادگی کی خبر دی تھی وہ آپ کے ہاں حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے موجود تھی۔‘‘
[1] [دباء]کدو کی تونبی، [حنتم]سبز لاکھی مرتبان،[نقیر]لکڑی کے کریدے ہوئے برتن، [مزفت] رال لگے ہوئے برتنوں کو کہا گیا ہے۔یہ برتن عموماً شراب تیار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور ان میں نشہ اور بڑھ جاتاتھا۔ حرمت شراب کے ساتھ ان برتنوں کے استعمال سے بھی روک دیا گیا۔(ملاحظہ ہو:شرح صحیح البخاری از مولانا داؤد راز۷/۵۳۳)۔
[2] بھجۃ النفوس۱/۹۴؛ نیز ملاحظہ ہو:شرح النووي۱/۱۹۵۔