کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 92
علم کے لیے حاضر خدمت ہوا ہوں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’طالب علم کو خوش آمدید! یقینا طالب علم کو فرشتے اپنے پروں سے گھیر لیتے ہیں، پھر وہ ایک دوسرے کے اوپر سوار ہوتے ہوئے آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ یہ [سب کچھ ]اس کے مطلوب [یعنی علم]سے محبت کی بنا پر کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طلبِ علم کے لیے حاضرِ خدمت ہونے والے شاگرد صفوان رضی اللہ عنہ کا خیر مقدم فرمایا اور ساتھ ہی انہیں اس بات کی بشارت دی کہ فرشتے بھی طالب علم کی تکریم کرتے ہیں۔
امام حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس قصے کو روایت کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ صفوان بن عسال المرادي رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مسئلے کے متعلق دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَا أَعْمَلَکَ إِلَیَّ إلاَّ ذٰلِکَ؟ ‘‘
’’تم میرے پاس صرف اسی غرض سے آئے ہو؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:’’مَا أَعْمَلْتُ إِلَیْکَ إِلاَّ لِذٰلِکَ۔‘‘
’’میں آپ کی خدمت میں صرف اسی مقصد کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ فَأَبْشِرْ فَإِنَّہٗ مَا مِنْ رَجُلٍ یَخْرُجُ فِيْ طَلَبِ الْعِلْمِ إِلاَّ بَسَطَتْ لَہُ الْمَلَائِکَۃُ بِأَجْنِحَتِھَا رِضيً بِمَا یَفْعَلُ، حَتَّی یَرْجِعَ۔‘‘ [1]
’’تمہارے لیے نوید بشارت ہے کیونکہ کوئی شخص طلب علم کے لیے نہیں نکلتا مگر فرشتے اس کے نکلنے پر خوش ہو کر اس کی خاطر اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ جائے۔‘‘
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب العلم، ۱/۱۰۰۔ امام حاکم نے اس کی [اسناد کو صحیح]قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت فرمائی ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱/۱۰۰؛ والتلخیص ۱/۱۰۰)۔