کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 91
(5)
طالب علم کا خیر مقدم
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے طلب علم کی غرض سے آنے والوں کا حسنِ استقبال کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا۔ توفیقِ الٰہی سے اس سلسلے میں تین مثالیں پیش کی جا رہی ہیں :
۱۔صفوان مرادی رضی اللہ عنہ کا خیر مقدم:
امام طبرانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صفوان بن عسال مرادي رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ أَ تَیْتُ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَھُوَ فِي الْمَسْجِدِ مُتَّکِیٌٔ عَلَی بُردٍ لَہٗ أَحْمَرَ، فَقُلْتُ لَہٗ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ! إِنِّیْ جِئْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ‘‘۔ فَقَالَ:’’ مَرْحَبًا بِطَالِبِ الْعِلْمِ! إِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَتَحُفُّہُ الْمَلَائِکَۃُ بِأَجْنِحَتِھَا، ثُمَّ یَرْکَبُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا، حَتّٰی یَبْلُغُوا السَّمَآئَ الدُّنْیَا مِنْ مُحَبَّتِھِمْ لِمَا یَطْلُبُ‘‘۔[1]
’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، تو میں نے عرض کیا:’’میں طلب
[1] نقلا عن مجمع الزوائد ومنبع الفوا ئد، کتاب العلم، باب في طلب العلم وإظہار البشر لہٗ، ۱/۱۳۱۔ حافظ ہیثمی نے تحریر کیا ہے:’’ اس کو الطبرانی نے [المعجم]الکبیر میں روایت کیا ہے اور [اس کے روایت کرنے والے صحیح کے راوی ہیں۔](المرجع السابق۱/۱۳۱)۔حافظ منذری نے لکھا ہے کہ اس کو احمد اور الطبرانی نے [عمدہ اسناد]کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے بھی اس کو روایت کیا ہے، اور حاکم نے اس کو [صحیح]قرار دیا ہے۔ابن ماجہ نے قدرے اختصار سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔(ملاحظہ ہو:الترغیب والترھیب۱/۹۵۔۹۶)؛شیخ البانی نے اس کو [حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح الترغیب والترھیب۱/۱۰۶)۔