کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 87
پکارا۔ سلسلۂ تعلیم میں اس کی اہمیت اہل فہم و نظر سے مخفی نہیں۔[1]
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ کو تعلیم دینے کا اہتمام فرمایا۔[2]
۳۔ شفقتِ مادری کے مشاہدہ پر رحمت الٰہیہ کا بیان:
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا :
’’ قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم سَبْيٌ، فَإِذَا امْرَأَۃٌ مِنَ السَّبيِ تَحَلَّبَ ثَدْیُھَا تَسْقِي، إِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْہُ، فَأَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِھَا، وَأَرْضَعَتْہُ۔ فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ أَ تَرَوْنَ ھٰذِہِ طَارِحَۃً وَلَدَھَا فِي النَّارِ؟‘‘۔
قُلْنَا:’’ لَا، وَھِیَ تَقْدِرُ عَلَی أَنْ لَا تَطْرَحَہُ‘‘۔
فَقَالَ :’’ لَلّٰہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہِ مِنْ ھٰذِہٖ بِوَلَدِھَا‘‘۔[3]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے، قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دودھ پلاتی تھی۔[4]اتنے میں اس کو قیدیوں میں [اپنا] بچہ ملا تو اس نے [ جھٹ ] اپنے پیٹ سے لگایا اور
[1] اس بارے میں کتاب ھذا کے صفحات ۱۱۸۔۱۳۰ پرتفصیل ملاحظہ کیجیے۔
[2] اس بارے میں کتاب ھذا کے کا ص:۷۰ بھی دیکھئے۔
[3] متفق علیہ:صحیح البخاري،کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، رقم الحدیث ۵۹۹۹، ۱۰/۴۲۶۔۴۲۷؛ الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔وصحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب، رقم الحدیث ۲۲(۲۷۵۴)، ۴/۲۱۰۹۔
[4] یعنی جو بچہ بھی اس کو مل جاتا، جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے:’’اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا اَخَذَتْہُ فَأَرْضَعَتْہُ، فَوَجَدتْ صَبِیًّا فَأَخَذَتہُ، فَأَلْزَمَتْہُ بَطْنَھَا۔ ‘‘(ملاحظہ ہو:فتح الباري ۱/۴۳۰) ترجمہ:’’ وہ جس بچے کو بھی قیدیوں میں دیکھتی پکڑ لیتی اور اس کو دودھ پلانا شروع کر دیتی، (یہاں تک کہ )اس کو [اپنا ]بچہ مل گیا،تو اس نے اس کو تھام لیا اور اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا۔‘‘