کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 83
حدیث شریف میں فائدہ دیگر: اس قصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و عنایت واضح ہے کہ آپ نے بدو کی بات کہ [ یہ تو میرے رب کے لیے ہے، میرے لیے کیا ہے ؟] پر خفگی کا اظہار نہ فرمایا،بلکہ اس کی فرمائش کو پورا فرماتے ہوئے اس کو مطلوبہ بات سے آگاہ فرمایا۔[1] ۱۰۔ نو مسلموں کو تعلیم : امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابو مالک اشجعی سے روایت نقل کی ہے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’ کَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ، عَلَّمَہُ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم الصَّلَاۃَ، ثُمَّ أَمَرَہُ أَنْ یَّدْعُوَ بِھٰؤُلآئِ الْکَلِمَاتِ:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَاْرحَمْنِيْ وَاھْدِنِيْ وَعَافِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔‘‘[2] ’’جب کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو نماز سکھاتے، پھر اس کو ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیتے:’’ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِيْ وَاھْدِنِيْ وَعَافِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔‘‘[3] اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نو مسلموں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔
[1] اس بارے میں تفصیل کتاب ھذا کے صفحات ۳۳۴۔۳۴۵ پر ملاحظہ فرمائیے۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء، رقم الحدیث۲۳(۲۲۹۶)،۴/۲۰۷۲۔ [3] ’’اے میرے اللہ ! مجھے معاف فرما دیجیے اور مجھ پر رحم فرما دیجیے اور مجھے ہدایت دیجیے اور مجھے عافیت دیجیے اور مجھے رزق دیجیے۔‘‘