کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 80
’’وعظ کرنا حدیث کے الفاظ :(فَوَعَظَھُنَّ) سے صراحتہً معلوم ہورہاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ بایں الفاظ تھا [ میں نے دیکھا ہے کہ تم اہل جہنم میں سے اکثریت میں ہو،کیونکہ تم زیادہ لعنت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو] اورتعلیم کا دینا حدیث کے الفاظ [ اور انہیں صدقے کا حکم دیا ] سے معلوم ہورہا ہے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات سے آگاہ فرمایا کہ صدقے میں ان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ ب:حدیث یُسَیرہ رضی اللہ عنہا : حضرات ائمہ ابوداود اور ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت یسیرہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے او روہ مہاجرات میں سے تھیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا : ’’ عَلَیْکُنَّ بِالتَّسْبِیْحِ وَالتَّھْلِیْلِ وَالتَّقْدِیْسِ۔ وَاعْقِدْنَ بِالأَنَامِلِ، فَإِنَّھُنَّ مَسْؤُوْلَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ، وَلَا تَغْفَلْنَ فَتَنْسَیْنَ الرَّحْمَۃَ۔‘‘[1] ’’تسبیح [2]، تہلیل[3] اور تقدیس[4]کو لازم کرواور پوروں کے ساتھ ذکر کرو، کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا اور انہیں قُوّت گویائی عطاکی جائے گی۔اورغفلت نہ کرنا کہ رحمت کو بھول جاؤ۔[5] اس حدیث شریف سے یہ واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مذکورہ بالا بات کی تعلیم دی۔
[1] سنن أبی داود، تفریع أبواب الوتر، باب التسبیح بالحصی، رقم الحدیث۱۴۹۸،۴/ ۲۵۸؛ وجامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب في فضل لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰه، رقم الحدیث۳۸۱۷،۱/۳۰۔۳۱، الفاظِ حدیث جامع الترمذی کے ہیں۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو[حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن أبي داد۱/۲۸۰؛ وصحیح سنن الترمذي۳/۱۸۳)۔ [2] (تسبیح):سبحان اللہ کہنا۔ [3] ( تہلیل):لا الہ الا اللہ کہنا۔ [4] (تقدیس):اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و نقص سے پاک ہونے کا ذکر کرنا۔ [5] یعنی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں غفلت کر کے رحمت الٰہی سے محروم نہ ہو جانا۔