کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 72
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو‘‘۔ میں کچھ دن کے بعد پھر ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ) آیا اور کہا:’’ یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ چیز بتلائیے کہ میں وہ اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:’’اے عباس! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا! اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی عافیت طلب کرو۔‘‘[1] اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا محترم کو دنیا و آخرت کی عافیت طلب کرنے کی تعلیم دی۔ ۳۔چچا زاد بھائی کو تعلیم: امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ : ’’ أَنَّ مُکَاتَبًا جَائَ ہٗ، فَقَالَ:’’ إِنِّیْ قَدْ عَجَزْتُ عَنْ کِتَابَتِيْ فَأَعِنِّيْ‘‘ قَالَ:’’ ألَا أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ عَلَّمَنِیْھِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَوْکَانَ عَلَیْکَ مِثْلُ جَبَلِ صِیْرٍ دَیْنًا، أَدَّاہُ اللّٰہُ عَنْکَ۔؟ قَالَ:قُلْ:’’اَللّٰھُمَّ اکْفنِيْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَنْ سِوَاکَ‘‘۔[2] ’’ایک مکاتب[3] ان کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میں حصول
[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا محترم عباس رضی اللہ عنہ کو صلاۃ التسبیح بھی سکھلائی۔ حوالے کے لیے ملاحظہ ہو:راقم السطور کی کتاب ’’رکائز الدعوۃ الی اللّٰہ تعالیٰ فی ضوء النصوص و سیرالصالحین ص۱۴۵۔۱۴۷‘‘۔ [2] جامع الترمذي،أحادیث شتی من أبواب الدعوات،باب،رقم الحدیث۳۷۹۸،۱۰/۶۔۷۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو [حسن غریب]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق۱۰/۷)؛ علامہ مبارکپوری نے لکھا ہے کہ اس کو بیہقی نے الدعوات الکبیر اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور حاکم نے اس کو [صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:تحفۃ الأحوذي۱۰/۷)؛ شیخ البانی نے اس کو[حسن]کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي ۳/۱۸۰)۔ [3] کچھ مال یا خدمت طے کر کے اپنے مالک سے آزادی حاصل کرنے والا غلام۔