کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 71
اسی حالت میں ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’جی ہاں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں نے تمہارے بعد [یعنی تجھ سے جدا ہونے کے بعد ]چار جملے تین مرتبہ کہے ہیں، اگر انہیں تمہارے آج کے [سارے]اذکار کے ساتھ تولا جائے،تو ان کا وزن زیادہ ہو گا۔ [وہ جملے یہ ہیں ]سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلقِْہِ وَرِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔‘‘[1]
اس حدیث شریف میں ان نادان معلمین کے لیے شدید تنبیہ ہے جنہیں لوگوں کی تعلیم دینے کا غم کھائے جارہا ہے،لیکن اپنے گھروالوں کی تعلیم و تربیت سے یکسر غافل ہیں۔
۲۔ چچا کو تعلیم :
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا :
قُلْتُ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم !عَلِّمْنِي شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ‘‘۔
قَالَ:’’سَلِ اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ‘‘۔
فَمَکَثْتُ أَیَّامًا، ثُمَّ جِِئْتُ، فَقُلْتُ:’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ‘‘۔
فَقَالَ لِيْ:’’یَاعَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ‘‘۔[2]
’’ میں نے کہا:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ چیز بتلائیے کہ میں اس کو اللہ تعالیٰ سے طلب کروں ‘‘۔
[1] یعنی اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کے ساتھ ہر عیب سے پاک ہے اپنی مخلوق کی گنتی اپنے نفس کی رضا، اپنے عرش کے وزن اور اپنے کلمات کی سیاہی کے بقدر۔
[2] جامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب،رقم الحدیث۳۵۱۴،۹/۳۴۸۔ وصححہ الشیخ الألباني۔ (انظر:صحیح سنن الترمذي۳/۱۷۰)۔