کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 63
کے سوال کا جواب دے‘‘ ۴۔دوران سفر تعلیم : ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے دوران بھی سلسلہ تعلیم کو ترک نہ کرتے، جہاں بھی ضرورت ہوتی،یا مناسب موقع میسر آتا آپ لوگوں کو اپنے فیضِ تعلیم سے بہرہ ور فرماتے۔ ذیل میں سیرت طیبہ سے چند مثالیں توفیق الٰہی سے پیش کی جا رہی ہیں : ۱۔ حدیث عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ : حضرات ائمہ احمد بن حنبل، ابوداوداور نسائی رحمہم اللہ تعالیٰ نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’کُنْتُ أَقُوْدُ بِرَسُوْلِ[لِرَسُوْلِ]اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَاحِلَتَہٗ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لِيْ:’’یَاعُقْبَۃُ! أَ لَا أُعَلِّمُکَ خَیْرَ سُوْرَتَیْنِ قُرِئَتَا؟ قُلْتُ:’’ بَلَی۔‘‘ قَالَ:’’{قُلْ أَعُوْذُ بَِربِّ الفَلَقِ}و{قُلْ أَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِ}۔[1] ’’میں دوران سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو ہانک رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :’’ اے عقبہ! کیا میں تمہیں ایسی دو سورتیں نہ سکھلاؤں جو پڑھی جانے والی سورتوں میں بہترین ہیں ؟میں نے عرض کیا :’’کیوں نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :{ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} اور { قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ}۔‘‘
[1] المسند۴/۱۵۳ (ط:المکتب الإسلامي)؛ وسنن أبي داود، أبواب قیام اللیل، تفریع أبواب الوتر، باب في المعوذتین، جزء من رقم الحدیث۱۴۵۹،۴/۲۳۶؛ وسنن النسائي، کتاب الاستعاذۃ،۸/۲۵۲۔۲۵۳۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو [صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:سنن أبي داود۱/ ۲۷۵؛ وصحیح سنن النسائي۳/۱۱۰۶)۔